ایک شخص کاروبار کی خاطر لہسن اور پیاز کا ڈھیر بیچنے کے لئے رکھ دیا۔
لوگوں کا Ø+جوم اُس Ú©Û’ پاس پہنچ گیا۔ فوراً وہ سودا جو اُس Ù†Û’ بیچنے Ú©Û’ لیے رکھا تھا ØŒ بِک گیا۔
پھر وہ زربفت کا کپڑا لے کر، دکان پر اُس نے بیچنے کے لیے رکھ دیا۔
کچھ نے اُسے خریدا اور کچھ قیمت معلوم کرکے واپس ہو گئے کہ ان کے اندر خریدنے کی استتاعت نہیں تھی۔
اُن میں سے کئی لوگ خریدے بغیر دل شکستہ ہوکر اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے۔
اُس Ú©Ù¾Ú‘ÙˆÚº Ú©Û’ ڈھیر میں سے تھوڑے لوگوں Ù†Û’ خریدا جن Ú©Û’ پاس Ø+وصلا اور Ø+یثیت تھی۔
پھر اُس شخص نے کپڑے کا کاروبار بند کرکے ہیرے لے کر آیا اور دکان پر انہیں بیچنے کی خاطر سجا کر بیٹھ گیا۔
اس نے کہا کہ یہ سودا بڑی قیمت والا ہے، اِسے بادشاہوں کے علاوہ کون خرید سکتا ہے۔
آخرکار یہ ہیروں کا سودا بادشاہ لے گیا، اور عام لوگوں نے خریدے بغیر اپنے گھر کی راہ لی۔
ایک وظیفا اور دوسرا کرامت کا کمال، میں نے تمہیں اس میں سودے کے قصہ میں کہہ کر بتا دیا۔
آخری سودا جو کہ ہیروں والا تھا اصل میں عشق والا سودا تھا، جسے بادشاہوں کے علاوہ کس نے بھی نہیں خریدا۔
عشق ہے زہر جو ہیرے کی مثل ہے، کسی بیدرد کی کیا مجال کہ اُسے (عشق) کو خریدے۔
Ø+ج زکوات اور وظیفوں کا ثواب ہر کوئی بے Ø+ساب Ø+اصل کرسکتا ہے۔
عشق کے قریب کو عام شخص نہیں جائے گا، کیونکہ عشق کا تعلق عام دنیا سے نہیں ہوتا۔
کون اس عشق کے آگے آنے کی جرئت کرسکتا ہے، کیا شیر کے سامنے بکریاں بچ سکتیں ہیں۔

Ø+ضرت صوفی سچل سرمست، رہبر نامہ (فارسی)