سونے کی ان پتریوں کو نہیں دیکھتا جو بکھری ہوئی ہوتی ہیں ۔
ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی وہ دست بدست پھرتی ہیں ۔
دن کو یہاں اور رات کو وہاں ۔
کبھی عطر فروشوں کے ہاتھ میں اور کبھی سبزی والوں کے پاس ۔
کبھی قصابوں کی جیب میں اور کبھی انگریزوں کے پاس ۔
کبھی روغن بیچنے والوں کے ہاتھ میں اور کبھی خاکروبوں کے پاس ۔
کبھی جوہریوں کے پاس اور کبھی ذلیل پیشہ کسی فرد کے پاس ۔
پھر یہ پتریان اکٹھی کر لی جاتی ہیں ۔ سنار انہیں بھٹی میں ڈال دیتا ہے ۔ اور آگ کی تپش سے وہ پگھل جاتی ہیں ۔ پھر ان پگھلی ہوئی پتریوں کو نکالا جاتا ہے انہیں کوٹ کر نرم کیا جاتا ہے اور اس سے زیور بنا دیا جاتا ہے ۔
پھر اس زیور کو پالش کر کے خوشبو لگا کر بہترین جگہ احتیاط سے رکھا جاتا ہے ۔
ان کی قیمت اور حیثیت بڑھ جاتی ہے ۔
سو جس الماری یا صندوق مین یہ زیور ہو اسے تالا لگا دیا جاتا ہے ۔
پھر یہی زیور دلہنوں کے گلے کی زینت بنتا ہے ۔
اس زیور کی بڑی تکریم ہوتی ہے ۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ زیور بادشاہ کی دلہن کے گلے کی زینت بنتا ہے ۔
سونے کی پتریوں کو لوگوں کے ہاتھوں سے نکل کر بادشاہ کے حرم تک پہنچنے کے لیے کتنے مدارج طے کرنا پڑے ۔
یہ صرف اسی وقت ممکن ہوا جب اسی بھٹی میں پگھلایا گیا اور ضرب لگا کر اسے نرم کیا گیا ۔
اے بندہ مؤمن تیرا معاملا بھی ایسا ہے ۔
اگر تو خدائی فیصلوں پر راضی رہا اور اللہ تعالیٰ تیرے اندر جو تصّرف کر رہا ہے اس پر تو صبر کرے گا تو اسی دنیا میں اپنے مولا کا قرب پائے گا ۔
علم و معرفت اور اسرار و حقائق کی نعمت سے سرفراز ہوگا ۔
اور آخرت میں انبیاء ، صدیقین، شھداء اور صالحین کے ساتھ سلامتی کے گھر میں رہائش پزیر ہوگا ۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ ترجمہ ظفر اقبال کلیار
آدابِ سلوک صفحہ 102