خراج ہے يہ محبتوں کا، عداوتوں کا
عذاب لمحوں کي وحشتوں کا
لہو ميں نکھري حکائتوں کا
بند سے لپٹي شکائتوں کا
رگوں ميں اُتري، اُتر کے بکھري، بکھر کے پھيلي بغاوتوں کا
خراج ہے يہ محبتوں کا، عداوتوں کا
انہيں بھي ديکھو جو سر پہ مٹي کو اوڑھتي ہيں
جو اپني حُرمت کي کرچيوں کو جگر کے پوروں سے چُن رہي ہيں
جو خواب پلکوں سے بُن رہي ہيں
پھر ان کو خود ہي اُدھيڑتي ہيں
بچي کُھچي سي جو اپني سانسيں سميٹتي ہيں
سميٹ کر خود بکھيرتي ہيں
کوئي تو ان کا جہاں ميں ہوگا، مگر کہاں ہے؟
پنہ ميں لے لے جو ان کو اپني، وہ گھر کہاں ہے؟
خراج ہے يہ محبتوں کا، عداوتوں کا
فلک پہ اُگتا ہوا يہ سورج گواہي دے گا
ہوائيں روتي ہيں سُن کے ماؤں *کے بين ہر پل
جو کوکتي ہيں، جو ہُوکتي ہيں
سسک سسک کر جو جي رہي ہيں
جو اپنے بيٹوں کي رکھ کے لاشيں
زميں پہ ديوار چُن رہي* ہيں
خراج ہے يہ محبتوں کا، عداوتوں کا
مگر وہ پل دور اب نہيں ہے، ہميں يقيں ہے
جہاں ميں چاروں ہي اور کرنوں کا راج ہوگا
مٹے ہوؤن کے، لُٹے ہوؤں کے سروں پہ خوشيوں کا تاج ہوگا
نقاب اُترے کا ديکھ لينا
جو بھيڑ لگتے تھے، بھيڑيے ہيں
اور اُن کے ابرو کے اک اشارے پہ موت رقصاں تھي،
چاروں جانب
اور آستيوں ميں ان کے خنجر چُھپے ہوئے تھے
سمجھ لو يومِ حساب ان کا قريب ہے اب
نقاب اُترے گا ديکھ لينا