ابا جی مجھے جب بھی مارتے تھے تو امی بچا لیتی تھیں. ایک دن میں نے سوچا کہ اگر امی پٹائی کریں گی تو کیا ابا جی مجھے بچائیں گے. یہ دیکھنے کے لیئے کہ کیا ہوتا ہے میں نے امی کا کہا نہ مانا

انہوں نے کہا کہ بازار سے دہی لا دو، میں نے کہا کے نہیں لانا اور پھر لینے بھی نہیں گیا. دوپہر کو کھانے کے وقت انہوں نے میری پیالی میں تھوڑا سا کم سالن ڈالا تو میں نے جان بوجھ کر زیادہ سالن کا اسرار کرنا شروع کردیا. پھر انہوں نے مجھے کہا کہ بیٹا پیڑھی کے اوپر بیٹھ کر کھاؤ. میں نے زمین پر دری بچھائی اور کھانا کھانے کے ساتھ اپنے کپڑے بھی گندے کر لئیے. اور ان سب چیزوں کے ساتھ میری لہجہ بھی گستاخانہ تھا.

مجھے پوری توقعہ تھی کہ امی مجھے اب ضرور ماریں گی. مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ میرے پاس آ کر مجھے سینے سے لگا لیا اور کہا " کیوں دلور (دلاور) پتر! میں صدقے، بیمار تو نہیں ہے تو؟. اس وقت میری آنکھوں میں آنسو تھے کے روکتے ہی نہیں تھے.

مرزار ادیب کی کتاب "مٹی کا دریا" سے اقتباس