حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ ابھی بچے تھے مسلمان بھی نہیں ہوۓ تھے، ایک دفعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو دیکھا کہ کفار کے چند بچے کھڑے ہوکر مسلمانوں کی اذان کی نقل اتار رہے ہیں، بچوں کا کیا ہے ، اِنکو تو ایک کھیل ھاتھ آگیا تھا، لیکن اللہ جب کسی کی ہدایت کے اسباب پیدا فرما دیتے ہیں تو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں، ۔ دیکھئے اُنکی ہدایت کا کیا سامان ہو رہا ہے کہ نقل اتارتے ہوۓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ لیا، بچے تو اور بھی بہت تھے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنکو طلب فرمایا اور ارشاد فرمایا:
کیسے اذان دے رہے تھے ذرا سناؤ!!
انہوں نے اذان شروع کی "اللہ اکبر" تو بلند آواز کے ساتھ چار بار کہہ دیا اسلئے کہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے قائل تو کفار بھی تھے لیکن اُسکے بعد جب شہادت کی باری آئی، توحید و رسالت کی شہادت۔ اب یہ ڈر گئے کہ یہ کلمات کیسے ادا کروں؟ کہیں اعزہ و اقارب نے دیکھ لیا یا آواذ سن لی تو پٹائی ہو جائے گی اسلئے شہادتین کے کلمات کہہ تو دیئے مگر بالکل دھیمی آواذ کے ساتھ،
حضور نے اپنا دستِ مبارک اُنکے سر پر رکھا اور فرمایا : بلند آواز سے کہو!
بس حضور کا ہاتھ مبارک رکھنا تھا کہ ایمان کی دولت سے مالا مال ھوگئے اور بلند آواذ کے ساتھ یہ کلمات پھر دہراۓ
اب اُنکا عشق دیکھئے کہ انہوں نے کیا کیا؟ ایک تو یہ کہ اگرچہ اذان کی حقیقت یہی ہے کہ "اشہد ان لا الہ الا اللہ" اور "اشہد ان محمد رسول اللہ" دو دو بار کہے جائیں اور شروع ہی سے بلند آواذ سے کہے جائیں مگر انہوں نے یہ سوچ کر کہ میرے محبوب کے ساتھ میرا یہ معاملہ ہوا تھا کہ پہلے یہ کلمات آہستہ آواز سے کہے تھے پھر بلند آواز سے دُہرائے ، بس عمر بھریہی معمول جاری رکھا جب بھی اذان دیتے پہلے شہادتین دبی آواز سے پھر بلند آواز سے۔ (ابو داؤد، نسائی)
الفاظ: حضرت مولانا رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ