حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کا زمانہ ہے۔ آپ کی ایک شاگردہ جو باقاعدہ آپ کا درس سننے آتی تھی۔ نہایت عبادت گزار تھی۔ اس بے چاری کا جوانی میں خاوند چل بسا۔ اس نے دل میں سوچا! ایک بیٹا ہے اگر میں دوسرا نکاح کرلوں گی تو مجھے دوسرا خاوند تو مل جائے گا‘ لیکن میرے بچے کی زندگی برباد ہوجائے گی۔ اب وہ بچہ جوان ہونے کے قریب ہے۔ ”یہی میرا سہارا سہی“ لہٰذا اس عظیم ماں نے یہی سوچ کر اپنے جذبات کی قربانی دی۔
وہ ماں گھر میں بچے کا پورا خیال رکھتی لیکن جب وہ بچہ گھر سے باہر نکل جاتا تو ماں سے نگرانی نہ ہوپاتی۔
اب اس بچے کے پاس مال کی کمی نہ تھی۔ اٹھتی ہوئی جوانی بھی تھی یہ جوانی دیوانی مستانی ہوجاتی ہے چنانچہ وہ بچہ بری صحبت میں گرفتار ہوگیا۔ شباب اور شراب کے کاموں میں مصروف ہوگیا، ماں برابر سمجھاتی لیکن بچے پر کچھ اثر نہ ہوتا‘ چکنا گھڑا بن گیا‘ وہ اس کو حضرت حسن بصری کے پاس لے کر آتی‘ حضرت بھی اس کو کئی کئی گھنٹے سمجھاتے لیکن اس بچے کا نیکی کی طرف رجحان ہی نہیں تھا۔ حضرت کے دل میں بھی یہ بات آئی کہ شاید اس کا دل پتھر بن گیا ہے‘ مہر لگ گئی ہے بہرحال ماں تو ماں ہوتی ہے۔ ماں اسے پیار سے سمجھاتی رہی، میرے بیٹے نیک بن جاو ‘تمہاری زندگی اچھی ہوجائے گی۔
کئی سال برے کاموں میں لگ کر اس نے اپنی دولت کے ساتھ اپنی صحت بھی تباہ کرلی اور اس کے جسم میں لاعلاج بیماریاں پیدا ہوگئیں‘معاملہ یہاں تک آپہنچا کہ اٹھنے کی بھی سکت نہ رہی اور بستر پر پڑگیا۔ اب اس کو آخرت کا سفر سامنے نظر آنے لگا‘ ماں نے پھر سمجھایا‘ بیٹا! تو نے اپنی زندگی توخراب کرلی‘ اب آخرت بنالے اور توبہ کرلے ‘اللہ بڑا غفور الرحیم ہے وہ تمہارے تمام گناہوں کومعاف کر دیگا۔
جب ماں نے سمجھایا اس کے دل پر کچھ اثر ہوا ۔کہنے لگا! ماں میں کیسے توبہ کروں؟ میں نے بہت بڑے بڑے گناہ کیے ہیں‘ ماں نے کہا بیٹا حضرت سے پوچھ لیتے ہیں‘ بیٹے نے کہا ماں اگر میں فوت ہوجاوں تو میرا جنازہ حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ پڑھائیں۔
ماں حضرت کے پاس گئی حضرت کھانے سے فارغ ہوئے تھے اور تھکے ہوئے تھے اور درس بھی دینا تھا۔ اس لیے قیلولہ کیلئے لیٹنا چاہتے تھے۔ ماں نے دروازہ کھٹکھٹایا‘ پوچھا کون؟ عرض کیا حضرت میں آپ کی شاگردہ ہوں۔ میرا بچہ اب آخری حالت میں ہے وہ توبہ کرنا چاہتا ہے لہٰذا آپ گھر تشریف لے چلیں۔
حضرت نے سوچا یہ پھر دھوکا دے رہا ہے اور میرا وقت ضائع کرے گا اور اپنا بھی کرے گا۔ سالوں گزرگئے اب تک کوئی بات اثر نہ کرسکی اب کیا کرے گی۔ کہنے لگے!میں اپنا وقت ضائع کیوں کروں؟ میں نہیں آتا۔ ماں نے کہا حضرت اس نے تو یہ بھی کہا کہ اگر میرا انتقال ہوجائے تو میرا جنازہ حضرت حسن بصری پڑھائیں۔ حضرت نے کہا میں اس کے جنازہ کی نماز نہیں پڑھاوں گا۔ اس نے تو کبھی نماز ہی نہیں پڑھی۔ اب وہ شاگردہ تھی چپ کرگئی‘ روتی ہوئی گھر آگئی۔
بیٹے نے پوچھا کیا ہوا؟ ماں نے کہا ایک طرف تیری حالت دوسری طرف حضرت نے انکار کردیا۔ اب یہ بات بچے نے سنی تو اس کے دل پر چوٹ لگی اور کہا ماں میری ایک وصیت سن لیجئے ماں نے پوچھا بیٹا وہ کیا؟
عجیب وصیت
کہا امی میری وصیت یہ ہے کہ جب میری جان نکل جائے تو سب سے پہلے اپنا دوپٹا میرے گلے میں ڈالنا‘ میری لاش کو کتے کی طرح صحن میں گھسیٹنا‘ جس طرح مرے ہوئے کتے کی لاش گھسیٹی جاتی ہے۔ ماں نے پوچھا بیٹا وہ کیوں؟ کہا امی اس لیے کہ دنیا والوں کو پتہ چل جائے کہ جو اپنے رب کا نافرمان اور ماں باپ کا نافرمان ہوتا ہے اس کا انجام یہ ہوا کرتا ہے۔
میری پیاری ماں مجھے قبرستان میں دفن نہ کرنا‘ ماں نے کہا وہ کیوں؟ کہا ماں مجھے اسی صحن میں دفن کردینا ایسا نہ ہو کہ میرے گناہوں کی وجہ سے قبرستان کے مردوں کو تکلیف پہنچے جس وقت نوجوان نے ٹوٹے دل سے عاجزی کی یہ بات کہی تو پروردگار کو اس کی یہ بات اچھی لگی‘ روح قبض ہوگئی‘ابھی روح نکلی ہی تھی ماں آنکھیں بند کررہی تھی تو دروازے پر دستک ہوئی پوچھا کون؟ جواب آیا حسن بصری ہوں۔ کہا حضرت آپ کیسے؟ فرمایا جب میں نے تمہیں جواب دے دیا اور سوگیا۔ خواب میں اللہ رب العزت کی طرف سے اشارہ ملا کہ حسن بصری تو میرا کیسا ولی ہے؟ میرے ایک ولی کا جنازہ پڑھنے سے انکار کرتا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ اللہ نے تیرے بیٹے کی توبہ قبول کرلی ہے۔ تیرے بچے کی نماز جنازہ پڑھنے کیلئے حسن بصری کھڑا ہے۔
اے اللہ! تو کتنا کریم ہے کہ مرنے سے چند لمحہ پہلے اگر کوئی بندہ شرمندہ ہوتا ہے تو اس کی زندگی کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔