Muhabbat be misaal hai
" محبت کی مثال ایک نابینا فقیر کی سی ہے۔ جس کا دل اس کا کشکول ہے۔۔۔۔ زندگی ایک بیابان راہ گزر ہے جس پر بیٹھا یہ نابینا فقیر ہر چاپ سے محبت کرتا ہے۔۔۔ ہر آواز اس کے احساس اور اعجاز کا حصہ ہے۔۔۔۔ محبت ایک نابینا فقیر ایسے ہر آواز کی تلاش میں زمین کو ٹٹولتی ہے۔۔ پتوں کی سرسراہٹ کو بھی سنتی ہے ۔۔ زمین پر سیاہ تلووں کی ٹھوکروں کو پہچانتی ہے اور آسمان پر سفید بگلوں کی اڑتی ہوئی ڈاروں کی باتیں بھی بوجھتی ہے۔۔
محبت ، محبت دینے کا نام ہے۔۔۔جیسے نابینا فقیر قدموں کی چاپ سن کر دعائیں دینے لگتا ہے۔۔۔۔ یہ جانے بنا کہ پاس سے گزرنے والا شخص فقیر ہت یا امیر۔۔۔۔ محبت کی مانگ اپنی جگہ، فقیر کا فقر بھی بجا۔۔ مگر ہر آہٹ پر نابینا فقیر کے دل سے بلند ہونے والی صدا اس محبت کا اظہار ہے۔۔۔۔۔ ایسا نابینا فقیر سکوں کو کشکول میں گرتا سن کر دعائیں نہیں دیتا، بلکہ قدموں کی ہر چاپ اسے صدائے محبت بلند کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔۔۔۔
میں نے زندگی سے سیکھا، کہ نابینا لوگوں کی سماعت قدرے تیز ہوتی ہے۔۔ اور فقیروں کی دعائیں قدرے پر اثر۔۔۔۔ نابینا فقیر میرے لئے اسی دو خواص کی بنا پر محبت کا استعارہ ہے۔۔
ایسے نابینا فقیر اعجاز کا مقام حاصل کر لیں تو ان کی صدا، قدموں کی آہٹ کا نہیں، بلکے قدموں کی آہٹ ایسے فقیروں کی صدا کا انتظار کرتی ہے۔۔۔ چاپ سن کر بلند ہونے والی آواز ، تھمتی ہی نہیں۔۔۔دعائیں رکتی ہی نہیں۔۔۔ اور وقت آتا ہے جب قدم اور راستے مل کر ان صداوں کا تعاقب کرتے ہیں۔۔۔۔ ایسے فقیر کے دل کا کشکول خالی نہیں رہتا۔۔۔۔بھر جاتا ہے۔۔۔ فقیر ، فقر کا روپ دھار لیتا ہے۔۔۔۔۔ اور استغناء نگاہِ بے نگاہی کو قدموں اور سکوں کی چاپ سے بھی آزادکر دیتا ہے۔۔۔۔۔۔
بینائی سے محرومی ہی سماعتوں سے آزادی کا پروانہ ہے۔۔۔۔ دکھ کے ریگستان کے پار ہی مسروریت کا ساحل ہے۔۔۔۔ محبتوں میں محبت کے تقاضوں سے ماوراء ہو جانا ہی مقصودِ محبت ہے۔۔۔۔۔ نابینا فقیر کا کشکول میں کھنکتے سکوں کی آواز سے بے نیاز ہو کر ہی دعائیں دیتے چلے جانا اعجازِ محبت ہے۔۔۔۔۔"
[["از مٹی کے جگنو:م "]]
تیری انگلیاں میرے جسم میںیونہی لمس بن کے گڑی رہیں
کف کوزه گر میری مان لےمجھے چاک سے نہ اتارنا
umdaah
Sun Yaara Sunn Yaara
Tere IshQ Daa Cholaa Paaya
zabardast sharing
تیری انگلیاں میرے جسم میںیونہی لمس بن کے گڑی رہیں
کف کوزه گر میری مان لےمجھے چاک سے نہ اتارنا