رویت ہلال یعنی چاند دیکھنے کا بیان
-----------------------------------------
اللہ عزوجل فرماتا ہے:
یسعلونک عن الاھلۃ قل ھی مواقیت للناس والحج۔
اے محبوب! لوگ تم سے ہلال کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ تم فرما دو وہ لوگوں کے کاموں اور حج کیلئے اوقات ہیں۔
... نیز ارشاد قرآنی ہے:
وقدرہ منازل لتعلموا عدد السنین واحساب۔
(وہی ہے جس نے سورج کو جگمگاتا بنایا اور چاند چمکتا) اور اس کیلئے منزلیں ٹھہرائیں کہ تم برسوں کی گنتی اور حساب جانو۔
سوال کیا گیا کہ یارسول اللہ! چاند کے گھٹنے بڑھنے کی غایت کیا ہے۔ یعنی ابتداء میں چاند بہت باریک طلوع ہوتا ہے۔ پھر تاریخ وار روز بروز بڑھتا ہے، یہاں تک کہ پورا روشن ہوجاتا ہے۔ پھر تاریخ وار گھٹتا ہے اور یہاں تک گھٹتا ہے کی پہلے کی طرح باریک ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ غائب ہوجاتا ہے۔ اس کی غایت و مصلحت کیا ہے۔
اس کے جواب میں قرآن کریم نے ارشاد فرمایا کہ ھی مواقیت للناس والحج ۔ یعنی چاند کا طلوع ہونا اور گھٹنا بڑھنا اور پھر آخری مرحلہ میں اس کا غائب ہوجانا تمہارے دنیاوی معاملات اور شرع حسابات کےلیے علامات ہیں۔ ہزار با دینی و دنیاوی امور اس سے متعلق ہیں۔ زراعت، تجارت، لین دین کے معاملات، روزے اور عید کے اوقات، عورتوں کی عدتیں، حیض کے ایام، حمل اور دودھ پلانے کی مدتیں، دودھ چھڑانے کے اوقات اور حج کے اوقات اس سے معلوم ہوتے ہیں۔ کیونکہ اول میں جب چاند باریک ہوتا ہے تو دیکھنے والا جان لیتا ہے کہ یہ ابتدائی تاریخ ہیں اور جب چاند پورا روشن ہوجاتا ہے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ مہینے کی درمیانی تاریخ ہے اور جب چاند چھپ جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ مہینہ ختم پر ہے۔ اسی طرح ان کے مابین ایام میں، چاند کی حالتیں ولالت و رہنمائی کی کرتی ہیں۔ پھر مہینوں سے سال کا حساب ہوتا ہے۔
یہ وہ قدرتی جنتری ہے جو آسمان کے صفحہ پر ہمیشہ کھلی رہتی ہے۔ اور ہر ملک اور ہر زبان کے لوگ، پڑھے بھی اور بے پڑھے بھی، شہری بھی اور دیہاتی بھی، خواص بھی اور عوام بھی سب اس سے اپنا حساب معلوم کرلیتے ہیں۔ اور یہی وہ قدرتی جنتری ہے جو آسمان پر نمودار ہو کر دنیا بھر کے لوگوں کو بیک وقت ان کی تاریخوں کا حساب بتاتی رہتی ہے۔
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ چاند کی چال کےلیے اٹھائیسں منزلیں مقرر ہیں جو بارہ برجوں پر منقسم ہیں۔ ہر برج کےلیے 1/3 ۔۔۔ 2منزلیں ہیں۔ چاند ہر شب ایک منزل میں رہتا ہے اور مہینہ تیس دن کا ہو تو دو شب، ورنہ ایک شب چپھتا ہے۔
اور لتعلموا عدد السنین والحساب کو قَدّرَہ سے متعلق رکھنے سے منشائے خداوندی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وقت و زمانہ کا حساب کتاب، تقویم قمری ہی کے مطابق رکھا جائے اور جب اعمال شرعی کا مدار، حساب قمر ہی پر ٹھہرا تو اس حساب قمری کا اہتمام و انضباط بھی فرض کفایہ ہوا۔ تو جنہیں انگریزی سنہ سے کاروبار رکھنا ضرورت کے درجہ میں آپڑا ہے، ان کےلیے تو خیر عذر بھی ہے لیکن بلا ضرورت سنہ ہجری قمری کو چھوڑ کر سنہ شمسی مسیحی انگریزی اختیار کرلین، غیرت اسلامی کے منافی اور واقعی بڑے افسوس کی بات ہے لیکن باایں ہمہ جن احکام شرعیہ کا دارومدار، رویت ہلال اور قمری مہینے سال سے ہے وہاں عیسوی سال ہر گز معتبر نہ ہوگا۔ مثلا مسلمان مرد خواہ عورت، جس عربی قمری اسلامی مہینے کی جس تاریخ کو صاحب نصاب ہوا اور وہی اسلامی مہنہ دوسرے سال کے آنے تک اس کے پاس مال بقدر نصاب باقی رہا تو وہی مہینہ تاریخ اس کےلیے زکٰوۃ کا سال ہے۔ انگریزی مہینوں کا اعتبار حرام ہے اور نہ اس کے اوقات آمدنی پر لحاظ۔
الغرض اسلام نے سال کا شمار قمری حساب پر رکھا ہے اور اس حساب کو شمسی حساب کے برابر کرنے کےلیے کوئی کوئی لوند کا مہینہ اختیار نہیں کیا۔ کیونکہ اسلام دین فطرت ہے اس لیے ضروری تھا کہ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایسے نہج حساب کو پسند فرماتے جو فطرت کےاصول اور دینی مصلحتوں پر مبنی ہو اور انہیں مصلحتوں میں سے ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ اسلامی مہینے اولتے بدلتے موسم میں آیا کریں تاکہ ساری دنیا کے مسلمان اس کی ہمہ گیری سے مستفید ہوں اور سردی گرمی کے تغیرات، کسی ایک طبقہ ارض سے مخصوص نہ رہیں۔
قیامت کے قریب چاند پھولے ہوئے نکلیں گے
--------------------------------------------------
۱۳۹۸۔ عن عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم : مِنْ اِقْتِرَابِ السَّاعَۃِ اِنْتِفَاخُ الْأہِلَّۃِ۔
حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ وسلم نے ارشاد فرمایا : قرب قیامت کی علامت سے ہے کہ چاند پھولے ہوئے نکلیں گے۔
۱۳۹۸۔ الجامع الصغیرللسیوطی ۵۰۳/۲
۱۳۹۹۔ عن أنس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم : مِنْ اِفْتِرَابِ السَّاعَۃِ أنْ یرَی الْہِلاَلُ قُبُلًا وَ یقَالُ ہُوَ لِلَیلَتَینِ۔
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ وسلم نے ارشاد فرمایا : علامات قیامت سے ہے کہ چاند بے تکلف نظر آئے گا ۔کہا جائیگا دو رات کا ہے ۔
۱۳۹۹۔ الجامع الصغیر للسیوطی، ۵۰۳/۲
چاند کے لئے اندازہ بیکار ہے
-------------------------------
۱۴۰۰۔عن أبی البختری سعید بن فیروز رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قال : خرجنا للعمرۃ ،فلما نزلنا ببطن نخلۃ قال : ترأینا الہلال فقال بعض القوم : ہو ابن ثلاث ،و قال بعض القوم : ہو ابن لیلتین ،قال : فلقینا ابن عباس ، فقلنا : انا رأینا الہلال ، فقال بعض القوم ، ہو ابن ثلاث ،وقال بعض القوم : ہو ابن لیلتین ، فقال : ا ی لیلۃ رأیتموہ؟قال : قلنا :لیلۃ کذا و کذا ، فقال ان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مدّہ للرؤیۃ، فہوللیلۃ رأیتموہ۔
حضرت ابو البختری سعید بن فیروز رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم عمرہ کو چلے جب بطن نخلہ میں اترے تو چاند دیکھا ، کوئی بولا : تین رات کا ہے ، کوئی بولا : دو رات کا ،حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے ملے ۔ ان سے عرض کی :کہ ہم نے ہلال دیکھا ۔کوئی کہتا ہے تین شب کا ہے ، کوئی دو شب کا بتاتا ہے ۔فرمایا: تم نے کس رات دیکھا تھا ۔ہم نے کہا فلاں شب ،فرمایا : حضور نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اسکا مدار رویت پر رکھا ہے ۔ تو وہ اسی رات کا ہے جس رات نظر آیا۔
فتاوی رضویہ ۵۰۹/۴
۴۰۰ا۔ الصحیح لمسلم ، باب بیان انہ لا اعتبار بکبر الہلال ، ۳۴۸/۱
نیا چاند دیکھ کر کیا دعا پڑھیں
---------------------------------
۱۴۰۲۔ عن عبادۃ بن الصامت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قال : کان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اذارأی الہلال قال : أللّٰہُ أکْبَرُألْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لاَ حَوْلَ وَلاَقُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ ، الٔلّٰہُمَّ! اِنِّی أسْئَلُکَ خَیرَ ہٰذَا الشَّہْرِ،وَأعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ الْقَدْرِ وَ مِنْ سُوْءِ الْحَشْرِ
حضرت عبادہ بن صامت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب نیا چاند دیکھتے تو یہ پڑھتے۔ أللّٰہُ أکْبَرُألْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لاَ حَوْلَ وَلاَقُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ ، الٔلّٰہُمَّ! اِنِّی أسْئَلُکَ خَیر ہٰذَا الشَّہْرِ،وَأعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ الْقَدْرِ وَ مِنْ سُوْءِ الْحَشْرِ ۔
۱۴۰۲۔ المسند لاحمد بن حنبل ، ۴۵۰/۶
کنز العمال للمتقی، ۱۸۰۴۳، ۸۷/۷
رمضان کے لئے شعبان کے چاند کی حفاظت کرو
----------------------------------------------------
۱۴۰۱۔عن أبی ہریرۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم : أحْصُوْا ہِلَالَ شَعْبَانَ لِرَمَضَانَ ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ـ:رمضان کے لئے شعبان کے چاند کی حفاظت کرو۔۱۲م
۴۰۱ا۔ الجامع للترمذی ، باب ما جاء فی احصاء ہلال شعبان لرمضان ، ۸۷/۱
المستدرک للحاکم ، ۴۲۵/۱
الدر المنثور للسیوطی، ۱۹۲/۱
کنز العمال للمتقی، ۲۳۷۴۴ ، ۴۸۵/۸
المصنف لعبد الرزاق، ۷۳۰۳، ۱۵۵/۱
کشف الخفاء للعجلونی، ۵۹/۱
شرح السنۃ للبغوی، ۴۰/۶
===========================
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں میں اسی لیے نمازی