حضرت عمر رضی اللہ تعالہ عنہ کے دور خلافت میں مدینہ میں ایک گویا (singer) تھا جو گایا کرتا تھا طبلہ سارنگی کے بغیر
اس زمانے میں یہ بھی بھت معیوب سمجھا جاتا تھا جب اس کی عمر 80 سال ھو گئی تو آواز نے ساتھ چھوڑ دیا اب کوئی اس کا گانا نہیں سنتا تھا گھر میں فقر و فاقے نے ڈیرے ڈال لئے ایک ایک کر کے گھر کا سارا سامان بِک گیا آخر تنگ آ کر وہ شخص جنت البقیع میں گیا اور بے اختیار اللہ کو پکارا کہ یا اللہ ! اب تو تجھے پکارنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔۔۔۔۔مجھے بھوک ھے
میرے گھر والے پریشان ھیں
... یا اللہ ! اب مجھے کوئی نہیں سنتا تو تو سن تو سن
میں تنگ دست ہوں تیرے سوا میرے حال سے کوئی واقف نہیں
حضرت عمر مسجد میں سو رہے تھے کہ خواب میں آواز آئی
عمر ! اٹھو بھاگو دوڑو ۔۔
میرا ایک بندہ مجھے بقیع میں پکار رہا ہے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ننگے سر ننگے پیر جنت البقیع کی طرف دوڑے کیا دیکھتے ہیں کہ جھاڑیوں کے پیجھے ایک شخص دھاڑیں مار مار کر رو رہا ہے اس نے جب عمر کو آتے دیکھا تو بھاگنے لگا سمجھا کہ مجھے ماریں گے حضرت عمر نے کہا رکو کہاں جا رہے ہو میرے پاس آؤ
میں تمھاری مدد کے لیے آیا ہوں
وہ بولا آپ کو کس نے بھیجا ہے؟
حضرت عمر نے کہا جیس سے لو لگائے بیٹھے ہو مجھے اس نے تمھاری مدد کے لئے بھیجا ھے
یہ سننا تھا وہ شخص گٹھنوں کے بل گِرا اور اللہ کو پکارا
یا اللہ !
ساری زندگی تیری نا فرمانی کی ،
تجھے بھلائے رکھا
یاد بھی کہا تو روٹی کے لئے
اور تو نے اس پر بھی "لبیک" کہا
اور میری مدد کے لئے اپنے اتنے عظیم بندے کو بھیجا
میں تیرا مجرم ہوں
یا اللہ مجھے معاف کردے
مجھے معاف کردے
یہ کہتے کہتے وہ مر گیا
حضرت عمر رضی اللہ تعالہ عنہ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی
اور اس کے گھر والوں کے لئے بیت المال سے وظیفہ مقرر فرمایا
سبحان اللہ
بے شک اللہ بڑا غفور الرحیم ھے..