میرے قاتل کو پکارو کہ میں زندہ ہوں ابھی
پھر سے مقتل کو سنوارو کہ میں زندہ ہوں ابھی
یہ شبِ ہجر تو ساتھی ہے میری برسوں سے
جاؤ سو جاؤ ستارو کہ میں زندہ ہوں ابھی
یہ پریشاں سے گیسو نہیں دیکھے جاتے
اپنی زلفوں کو سنوارو کہ میں زندہ ہوں ابھی
لاکھ موجوں میں گِرا ہوں مگر ڈوبا تو نہیں
مجھ کو ساحل سے پکارو کہ میں زندہ ہوں ابھی