قربت بھی نہیں دل سے اتر بھی نہیں جاتا
وہ شخص کوئ فیصلہ کر بھی نہیں جاتا

آنکھیں ہیں کے خالی نہیں رہتی لہو سے
اور زخم جدائ ہے کہ بھر بھی نہیں جاتا

وہ راحت جاں ہے مگر اس در بدری میں
ایسا ہے کہ اب دھیان ادھر بھی نہیں جاتا

ہم دوہری ازیت کے گرفتار مسافر
پاؤں بھی ہیں شل شوق سفر بھی نہیں جاتا

دل کو تیری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے
اور تجھ سے بچھڑنے کا ڈر بھی نہیں جاتا

پاگل ہوئے جاتا ہوں فراز اس سے ملنے کو
اتنی سی خوشی سے کوئ مر بھی نہیں جاتا