اک نام کی اُڑتی خوشبو میں اک خواب سفر میں رہتا ہے
اک بستی آنکھیں ملتی ہے اک شہر نظر میں رہتا ہے
کیا اہلِ ہنر، کیا اہلِ شرف سب ٹکڑے ردی کاغذکے
اس دور میں ہے وہ شخص بڑا جو روز خبر میں رہتا ہے
پانی میں روز بہاتا ہے اک شخص دئیے اُمیدوں کے
اور اگلے دن تک پھر ان کے ہمراہ بھنور میں رہتا ہے
اک خوابِ ہُنر کی آہٹ سے کیا آگ لہو میں جلتی ہے
کیا لہر سی دل میں چلتی ہے! کیا نشہ سر میں رہتا ہے
جو پیڑ پہ لکھی جاتی ہے جو گیلی ریت سے بنتا ہے
کون اُس تحریر کا وارث ہے !کون ایسے گھر میں رہتا ہے!
ہر شام سُلگتی آنکھوں کو دیوار میں چُن کر جاتی ہے
ہر خواب، شکستہ ہونے تک زنجیرِ سحر میں رہتا ہے
یہ شہر کتھا بھی ہے امجد اک قصہ سوتے جاگتے کا
ہم دیکھیں جس کردار کو بھی جادو کے اثر میں رہتا ہے