فانی بدایونی

دلِ مرحوم کو خدا بخشے ۔۔۔۔!!
ایک ھی غم گسار تھا، نہ رھا

تاریخ پیدائش : 13 دسمبر 1879ء
تاریخ وفات : 27 اگست 1941ء
شوکت علی فانی 1879ء میں بدایون میں پیدا ہوئے۔ فانی کے والد محمد شجاعت علی خان محکمہ پولیس میں انسپکٹر تھے۔ روش زمانہ کے مطابق پہلے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انگریزی پڑھی اور 1901ء میں بریلی سے بی اے کیا۔
کالج چھوڑنے کے بعد کچھ عرصہ پریشانی کے عالم میں گزارا۔ لیکن شعر و سخن کی دلچسپیاں ان کی تسلی کا ذریعہ بنی رہیں۔ 1908ء میں علی گڑھ سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا۔ لیکن وکالت کے پیشے سے انہیں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ صرف والد کے مجبور کرنے پر وکالت شروع کی اور کچھ عرصہ بریلی اور لکھنو میں پریکٹس کرتے رہے۔ لیکن قانون سے لگاؤ نہ ہونے کی وجہ سے بحیثیت وکیل کامیاب وکیل ثابت نہ ہوئے۔
مجموعی طور سے فانی کی زندگی پریشانی میں گزری ۔ لیکن جس وقار اور فراح دلی کے ساتھ انہوں نے مصائب کو برداشت کیا وہ انہی کا کام تھا۔ ان کی اس پریشان حالی سے متاثر ہو کر مہاراجہ حیدر آباد نے انہیں اپنے پاس بلا لیا اور اسٹیٹ سے تنخواہ مقرر کر دی۔ پھر وہ محکمہ تعلیم میں ملازم ہوئے اور ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے اسی اثناء میں رفیقہ حیات فوت ہوگئیں۔ 1933ء میں جواں سال بیٹی کا انتقال ہوگیا۔ جس سے فانی کےدل کو ٹھیس لگی۔ آخر کار ساری زندگی ناکامیوں اور مایوسیوں میں بسر کرکے 1941ء میں وفات پائی۔
٭٭٭٭٭٭
کتابیات
٭٭٭٭٭٭
آپ کا پہلا مجموعہ کلام 1917ء میں بدایوں میں چھپا ۔ اسکے علاوہ آپ کی تصانیف اور کلام پر جو اھم کتب چھپیں وہ درج ذیل ھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقیاتِ فانی
عرفانیتِ فانی
فانی کی نادر تحریریں
انتخابِ فانی
عرفانیتِ فانی ( سوکت علی خاں فانی بدایونی کے قدیم و جدید کلام کا مکمل مجموعہ )
ترقی اردو
کلیاتِ فانی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
منتخب کلام
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جانتا ہوں کہ مرا دل مرے پہلو میں نہیں
پھر کہاں ہے جو ترے حلقۂ گیسو میں نہیں

ایک تم ہو تمہارے ہیں پرائے دل بھی
ایک میں ہوں کہ مرا دل مرے قابو میں نہیں

دور صیّاد، چمن پاس، قفس سے باہر
ہائے وہ طاقتِ پرواز کہ بازو میں نہیں

دیکھتے ہیں تمہیں جاتے ہوئے اور جیتے ہیں
تم بھی قابو میں نہیں، موت بھی قابو میں نہیں

حیف جس کے لیے پہلو میں نہ رکھا دل کو
کیا قیامت ہے کہ فانی وہی پہلو میں نہیں
٭٭٭٭٭٭٭
خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا
ایک گوشہ ہے یہ دنیا اسی ویرانے کا

اک معمّہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

حُسن ہے ذات مری، عشق صفَت ہے میری
ہوں تو میں شمع مگر بھیس ہے پروانے کا

کعبہ کو دل کی زیارت کے لیے جاتا ہوں
آستانہ ہے حرم میرے صنم خانے کا

مختصر قصّہٴ غم یہ ہے کہ دل رکھتا ہوں
رازِ کونین خلاصہ ہے اس افسانے کا

زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے
ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مر جانے کا

تم نے دیکھا ہے کبھی گھر کو بدلتے ہوئے رنگ
آؤ دیکھو نہ تماشا مرے غم خانے کا

اب اسے دار پہ لے جا کے سُلا دے ساقی
یوں بہکنا نہیں اچھّا ترے مستانے کا

دل سے پہنچی تو ہیں آنکھوں میں لہو کی بوندیں
سلسلہ شیشے سے ملنا تو ہے پیمانے کا

ہڈّیاں ہیں کئی لپٹی ہوئی زنجیروں میں
لیے جاتے ہیں جنازہ ترے دیوانے کا

وحدتِ حُسن کے جلووں کی یہ کثرت اے عشق
دل کے ہر ذرّے میں عالم ہے پری خانے کا

چشمِ ساقی اثرِ مے سے نہیں ہے گل رنگ
دل مرے خون سے لبریز ہے پیمانے کا

لوح دل کو، غمِ الفت کو قلم کہتے ہیں
کُن ہے اندازِ رقم حُسن کے افسانے کا

ہر نفَس عمرِ گزشتہ کی ہے میّت فانی
زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا
٭٭٭٭٭٭٭٭
ضبط اپنا شعار تھا، نہ رہا
دل پہ کچھ اختیار تھا، نہ رہا

دلِ مرحوم کو خدا بخشے
ایک ہی غم گسار تھا، نہ رہا

موت کا انتظار باقی ہے
آپ کا انتظار تھا، نہ رہا

اب گریباں کہیں سے چاک نہیں
شغلِ فصلِ بہار تھا، نہ رہا

آ، کہ وقتِ سکونِ مرگ آیا
نالہ نا خوش گوار تھا، نہ رہا

ان کی بے مہریوں کو کیا معلوم
کوئی اُمّیدوار تھا، نہ رہا

آہ کا اعتبار بھی کب تک
آہ کا اعتبار تھا، نہ رہا

کچھ زمانے کو سازگار سہی
جو ہمیں سازگار تھا، نہ رہا

مہرباں، یہ مزارِ فانی ہے
آپ کا جاں نثار تھا، نہ رہا
٭٭٭٭٭٭٭
یاں ہوش سے بیزار ہوا بھی نہیں+جاتا
اُس بزم میں+ہُشیار ہوا بھی نہیں+جاتا

کہتے ہو کہ ہم وعدہ پرسش نہیں+کرتے
یہ سن کے تو بیمار ہوا بھی نہیں+جاتا

دشواری، انکار سے طالب نہیں+ڈرتے
یوں سہل تو اقرار ہوا بھی نہیں+جاتا

آتے ہیں عیادت کو تو کرتے ہیں+نصیحت
احباب سے غم خوار ہوا بھی نہیں+جاتا

جاتے ہوئے کھاتے ہیں مری جان کی قسمیں
اب جان سے بیزار ہوا بھی نہیں+جاتا

غم کیا ہے اگر منزل جاناں ہے بہت دور
کیا خاکِ رہِ یار ہوا بھی نہیں+جاتا

دیکھا نہ گیا اس سے تڑپتے ہوئے دل کو
ظالم سے جفا کار ہوا بھی نہیں+ جاتا

یہ طرفہ ستم ہے کہ ستم بھی ہے کرم بھی
اب خوگر آزار ہوا بھی نہیں+جاتا
٭٭٭٭٭٭٭٭
بِجلیاں ٹُوٹ پڑیں جب وہ مُقابِل سے اُٹھا
مِل کے پلٹی تھیں نِگاہیں کہ دُھواں دِل سے اُٹھا

جَلوہ محسُوس سہی، آنکھ کو آزاد تو کر
قید آدابِ تماشا بھی تو محفِل سے اُٹھا

پھر تو مضرابِ جنُوں، سازِ انا لیلےٰ چھیڑ
ہائے وہ شور انا القیس ، کہ محمِل سے اٹھا

اِختیار ایک ادا تھی مِری مجبُوری کی
لُطفِ سعیِ عَمل اِس مطلب حاصِل سے اٹھا

عُمرِ اُمید کے دو دِن بھی گراں تھے ظالم
مارِ فردا، نہ تِرے وعدۂ باطل سے اُٹھا

خبرِ قافلۂ گُم شُدہ کِس سے پُوچھوں
اِک بَگولہ بھی نہ خاکِ رہِ منزِل سے اُٹھا

ہوش جب تک ہے گلا گھونٹ کے مر جانے کا
دمِ شمشِیر کا احساں تِرے بِسمِل سے اُٹھا

موت ہستی پہ و ہ تُہمت تھی کہ آسان نہ تھی
زندگی مُجھ پہ وہ اِلزام کہ مُشکِل سے اُٹھا

کِس کی کشتی تہِ گرداب فنا جا پہنچی
شورِ لبیک، جو فانی لبِ ساحِل سے اُٹھا
٭٭٭٭٭٭٭
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک