وفا سا قیمتی گوہر لٹا کر لوٹ آئی ہوں
کسی کے ظرف کی حد آزما کر لوٹ آئی ہوں

بجھی آنکھوں میں اب صحرا‘ بسے یا خواب یا بادل
میں ہر امید اشکوں میں بہا کر لوٹ آئی ہوں

اچانک ہی مسیحا کی حقیقت کھل گئی مجھ پر
میں رستے زخم سینے سے لگا کر لوٹ آئی ہوں

وہ اک سپنا کہ جس کی چاہ میں اک عمر جاگی تھی
اسی سپنے سے اب نظریں چرا کر لوٹ آئی ہوں

کہاں سودا سمایا تھا کہ منزل تک پہنچنا ہے
کہاں منزل کو پھر نزدیک پا کر لوٹ آئی ہوں

مجھے اسکو بتانا تھا میں اس بن جی نہیں سکتی
مگر یہ بات ہونٹوں میں دبا کر لوٹ آئی ہوں

بہت ہی زعم تھا ناصح کو اپنی پارسائی پر
اسے میں سچ کا آئینہ دکھا کر لوٹ آئی ہوں

کسی کی راہ میں آنکھیں جلائیں دل جلا ڈالا
پھر انکی راکھ ساگر میں بہا کر لوٹ آئی ہوں

مجھے اب عمر ساری دشتِ حیراں میں بھٹکناہے
پلٹ جانے کا ہر نقشہ مٹا کر لوٹ آئی ہوں

یہ دل پر منکشف ہے کہ جدا ہے اسکا ہر رستہ
مگر پھر دل کی ہی باتوں میں آکر لوٹ آئی ہوں