دریچے کھول دو دل کے
غلط فہمی کی مکڑی نے
بڑی سرعت سے اک جالا سا بُن ڈالا
Ù…Ø+بت اس Ú©Û’ تاروں میں الجھ کر
ہاتھ پاؤں مار کر بچنے کی کوشش کر رہی ہے
ایک مدت سے
وہ ذہنی کشمکش اور کرب
کے اس جال سے
نکلے بھی تو کیسے
وہ کوئی روشنی اپنے دریچوں سے ادھر آنے نہیں دیتا
ہوائے اعتبار و باہمی الفت کے جھونکوں کو
وہ شہرِ دل کی گلیوں میں گزرنے ہی نہیں دیتا
مرے جذبوں کا سچ
فہم و فراست کی فصیلوں سے
اترنے ہی نہیں دیتا
مگر ہر دن کی رو پہلی کرن سے میں یہ کہتی ہوں
اسے گر ہوسکے تو اب Ø+قیقت آشنا کردو
ذرا گھر کے اندھیروں میں لگے
ان شک کے جالوں میں
وفا کی ایک اس اجلی کرن کو کام کرنے دو
دریچے کھول دو دل کے......!!