پنجاب کا ہیرو

پنجاب ، دریا راوی ، دریا چناب ، دریا ستلج ، دریا سندھ اور دریا دلی کی سر زمین ہے -

یہاں جو آدمی کسی عورت کو شادی سے پہلے بھگا لے اسے مرزا اور جو شادی کے بعد بھگائے اسے رانجھا کہتے ہیں -

جو یہ کام قصے کہانیوں میں کرے وہ ہیرو اور جو حقیقی زندگی میں کرے ، ولن کہلاتا ہے -

پنجاب کی ٹریجڈی یہ ہے کہ اس کے پاس جتنے اچھے عاشق ہیں سب مردہ ہیں ، ہیر رانجھا بھی ان میں سے ہیں -

کیدو ان کی کہانی کا مرکزی کردار ہے اسے کیدو اس لئے کہتے ہیں کہ اس کی زندگی کا اصول تھا جو دیکھو سب کو کہ دو -

پنجاب کی لوک داستانیں پڑھ کر لگتا ہے یہاں کے لوگوں کی جوانی کا آغاز محبّت سے اور اختتام بھی محبّت سے ہوتا ہے -

اور نئی نسل کو اس سے بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اسے نصاب میں شامل کر دیا جائے -

کیدو بوڑھا نہیں تھا کیونکہ پنجابی کبھی بوڑھا نہیں ہوتا اور جو بوڑھا ہوتا ہے وہ پنجابی نہیں ہوتا -

اس قدر نرم دل کہ اس نے کبھی کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا ، زیادہ سے زیادہ انگلی اٹھائی -

کسی خاتون کو اس وقت تک نہ دیکھتا جب تک اس پر شک نہ ہوتا یوں اس کی نظر صحافی کی ، دماغ فوجی کا اور دل پلسئیے کا تھا -

جب کہ حوصلہ اور جسم اس کا اپنا ہی تھا -

چال شطرنج کے گھوڑے کی طرح اور چلن اس کے بادشاہ جیسا -

وہ فرشتہ تھا اس کے کام بھی فرشتوں والے تھے یعنی دوسروں کے گناہوں اور برائیوں کا حساب رکھتا -

وارث شاہ اسے شیطان کہتا ہے ، لیکن شیطان بھی تو فرشتہ تھا -

کیدو نے خدا سے عزت ، چوچک نے دولت اور رانجھے نے ہیر مانگی -

ظاہر ہے آدمی وہی کچھ مانگتا ہے جو اس کے پاس نہیں ہوتا -

ڈاکٹر یونس بٹ " بٹ صورتیاں " صفحہ ١٥٦