٭٭٭آدم علیہ السلام کی تخلیق٭٭٭
اور جب اللہ تعالی نے کہا کہ میں اپنی عبادت کیلئے ایک اور مخلوق پیدا کرنا چاہتا ہوں جو میری عبادت کرےتو فرشتوں نے کہا اے اللہ آپ نے پہلے جنات کو بھی پیدا کیا تھا تو انہوں نے زمین پر فساد برپا کر دئیے اب آپ ایک اور مخلوق پیدا کرنا چاہتے ہیں، آپ کی عبادت کیلئے ہم ہیں نہ جو ہر وقت آپ کی تسبیح کرتے ہیں۔
( یہ فرشتوں کا اعتراض نہیں تھا، بلکہ وہ اپنی بات کی وضاحت چاہتے تھے، کیونکہ جنات کی شرانگیزیاں وہ دیکھ چکے تھے )
تو اللہ پاک نے فرمایا:
اے فرشتو بے شک تم میں عبادت کرتے ہو لیکن میں جو مخلوق پیدا کروں گا وہ میری عبادت کے ساتھ ساتھ اپنے(دنیاوی) کام بھی کرے گی،
اور پھر اللہ پاک نے حکم دیا جاؤ اور پوری زمین سے جتنی قسم کی مٹی ملے لے آؤ۔
( ہم جانتے ہیں کہ زمین پر مختلف اقسام کی مٹی موجود ہے، جسے چکنی مٹی، کھاری مٹی، کہیں پے جلی ہوئی، سرخ مٹی وغیرہ )
جب فرشتے مٹی لے آئے تو اللہ پاک نے اپنے ہاتھ سے آدم علیہ السلام کو بنایا،،جب آپ کا نمونہ تیار ہوگیا تو روایات کے مطابق آپ کا نمونہ(مجسمہ) چالیس سال تک پڑا رہااور جب سوکھ گیا تو شیطان جب بھی اس نمونے کے پاس سے گزرتا تو انگلی سے بجاتا تو ایسی آواز آتی جیسے مٹی کے برتن پر انگلی مارنے سے آتی ہے،آدم کا مجسمہ چونکہ اندر سے کھوکھلا تھا،تو ایک دن شیطان ہوا بن کر اندر گھس گیا اور پھر باہر نکل آیااور بولا اللہ پاک جو نئی مخلوق کو پیدا کرنے جارہا ہے وہ تو اندر سے بہت کھوکھلی ہے اور کبھی بھی ثابت قدم نہیں رہ سکے گی،
اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو اپنے ہاتو ں سے پیدا فرما یا تاکہ ابلیس بڑائی کا دعوہ نہ کرے۔اور جب وہ وقت آیا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کی تخلیق کا ارادہ فرمایا اور فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ جب میں اس میں روح ڈال دوں تو تم سب اسکو سجدہ کرنا۔
اور جب روح ڈالی گئی تو اسکو سر کی طرف سے ڈالا گیا۔اور حضرت آدمؑ کی آنکھیں کھلی اور انکو چھینک آ گئی۔فرشتوں نے کہا کہیئے الحمدللہ کہ سب تعریفیں اللہ کیلئے ہیں۔
آدمؑ نے کہا الحمدللہ تو اللہ تعالیٰ نے جواب میں کہا "یا رحمک اللہ"
آنکھیں کھلنے کے بعد آدم ؑ کی نظر سب سے پہلے جنت کے پھلوں پر پڑی تو وہ انکو جلدی میں توڑنے کیلئے اٹھے لیکن چونکہ ٹانگوں میں جان نہیں تھی اس لیئے گر پڑے۔
اسی لیئے اللہ پاک نے فرمایا!
(انسان تو جلد بازی کا بنا ہوا ہے --سورۃ الانبیاء 37/21 )
یعنی جلد بازی انسان کی فطرت میں شامل ہے۔
تخلیق کے بعد آدمؑ کا قد ساٹھ ہاتھ تھا.پھر اللہ پاک نے آدمؑ سے کہا اے آدم جاؤ اور فرشتوں کی اس جماعت کو سلام کرو اور سنو وہ کیا جوب دیتے ہیں اور پھر یہی سلام اور طریقہ کار تمہاری اولاد استمعال کرے گی۔
حضرت آدمؑ نے جاکر فرشتوں سے کہا,
السلام علیکم
اور فرشتوں نے جواب میں کہا,
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ یعنی جواب میں ورحمتہ اللہ کا اضافہ ہوگیا.
جس دن آدمؑ کی تخلیق ہوئی وہ جمعہ کا دن تھا۔اسی دن آدم ؑ کو جنت میں داخل کیا گیا اور اسی دن جنت سے نکالا گیا اور اسی دن ہی قیامت آئے گی حضرت آدم ؑ جمعہ کے دن عصر اور مغرب کے وقت کے دوران پیدا کیئے گئے.
آدمؑ کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ سجدے میں گر جاؤ۔تو سارے فرشتے سجدے میں گر گئے ماسوائے شیطان کے جوکہ غرور میں آگیا اور کافر و مردود قرار پایااور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم ؑ کو سجدہ کرو تو وہ سب سجدے میں گر پڑے لیکن ابلیس نے سجدہ نہ کیا اور غرور میں آکر کافر بن گیا—(سورۃ البقرہ 34/2)
قصص الانبیاء،
بحوالہ سورۃ الانبیاء (تفسیر سورۃ النبیا)،سورۃ البقرہ
صحیح مسلم،صحیح البخاری،صحیح مسلم باب الجمع،