ہجر کے مسافر کے
پاؤں تک بھی چھو آؤ
جس کو لوٹ جانا ہو
...اس کو دور جانے سے
راستہ بدلنے سے
...دور جا نکلنے سے
کون روک سکتا ہے
لاکھ ضبط خواہش کے
بے شمار دعوے ہوں
اس کو بھول جانے کے
بے پناہ ارادے ہوں
اور اس محبت کو ترک کر کے جینے کا
......فیصلہ سنانے کو
کتنے لفظ سوچے ہوں
دل کو اسکی آہٹ پر
بر ملا دھڑکنے سے کون روک سکتا ہے
پھر وفا کے صحرا میں
اس کے نرم لہجے اور سوگوار آنکھوں کی
خوشبوؤں کو چھونے کی
جستجو میں رہنے سے
روح تک پگھلنے سے
ننگے پاؤں چلنے سے
کون روک سکتا ہے
چاہے دل کے ہاتھوں میں
آنسوؤں کی بارش میں
ہجر کے مسافر کے
پاؤں تک بھی چھو آؤ
جس کو لوٹ جانا ہو
اس کو دور جانے سے
راستہ بدلنے سے
دور جا نکلنے سے
کون روک سکتا ہے