وہ شخص مجھ کو جیت کے ہارا ہے اور بس
اتنا ہی زندگی کا خسارہ ہے اور بس
کیسے کہوں کہ اُس کا ارادہ بدل گیا
سچ تو یہی ہے اُس نے پکارا ہے اور بس
دنیا کو اِس میں درد کی شدت کہاں ملے
آنکھوں سے ٹوٹتا ہوا تارا ہے اور بس
لفظوں میں دردِ ہجر کو محسوس کر کے دیکھ
کہنے کو میں نے وقت گزارا ہے اور بس
اب ان میں کوئی خواب سجانے نہیں مجھے
آنکھوں کو انتظار تمہارا ہے اور بس
میں نے کہا کہ خواب میں دیکھی ہیں بارشیں
اس نے کہا کہ ایک اشارہ ہے اور بس