کچھ کہنا تھا اُسے بھی اور مجھے بھی
اُس نے چاہا میں کچھ کہوں میریِ ضد بات وہ کرے
یہی سوچتے سوچتے زمانے بیت گئے
نہ اس کی اَناٹوٹی نہ میری ضد
اس کی انا فصیل تھی تو میری ضد چٹان
انا اور ضد کے اِسی تضاد میں
سفرِزندگی یونہی رواں رہا
وقت کٹتا رہا درد بڑھتا
اور سفر اختتام کو پُہنچا
اختتامِ سفر یہ رہا
میری آنکھوں میں ہلکی سی نمی
اور شاید اس کی زندگی میں تھوڑی سی کمی
اُس کی انا شکست خوردہ
میری ضد ریزہ ریزہ