وہ جُدا ہو گیا مسکراتے ہوئے

پھر بہانے پرانے بناتے ہوئے
وہ جُدا ہو گیا مسکراتے ہوئے

کب تلک میں سہوں بے وفائی تری
کیوں جیؤں خود کو ایسے مٹاتے ہوئے؟

خواب میں بھی مرے خواب کل رات کو
ڈر رہے تھے تری سمت جاتے ہوئے

تیری یادوں کا ریلا گزرتا رہا
سب خدوخال میرے مٹاتے ہوئے

کل کھڑا تھا جہاں آج بھی ہوں وہیں
تیری یادوں کی شمّعیں جلاتے ہوئے

تُو کہاں رہ گئی اے مری زندگی؟
تھک گیا پاس تجھ کو بلاتے ہوئے

ہجر کی دھوپ سے میں جھلستا رہا
وصل کی آس میں جاں گنواتے ہوئے