توفیقِ علم و حلم و شرافت نہیں مجھے
حاصل کسی طرح کی سعادت نہیں مجھے
جب سے سنی ہیں متّقیوں کی کرامتیں
اپنے کیے پہ کوئی ندامت نہیں مجھے
دل چاہتا تو ہے کہ ہَوس کاریاں کروں
لیکن یہ استطاعت و ہمّت نہیں مجھے
خوبانِ شہر بھی نہ ہوئے مجھ پہ ملتفت
میں بھی وہ بد دماغ کہ حسرت نہیں مجھے
تا حشر حاسدوں کو سلامت رکھے خدا
ان کے طفیل کون سی راحت نہیں مجھے
درپے ہُوا ہی کرتے ہیں کج فہم و کم نظر
ان احمقوں سے کوئی شکایت نہیں مجھے
لکھّی گئی ہیں نامہ ء اعمال میں مرے
جن لغزشوں سے دور کی نسبت نہیں مجھے
کیا کیا ہُوئیں نہ حوصلہ افزائیاں کہ اب
زنہار صبر و ضبط کی طاقت نہیں مجھ
چُپ ہوں کہ بارگاہِ حقیقت پناہ سے
اسرار کھولنے کی اجازت نہیں مجھے