بپھری موجیں، دور ساحل، اک سہارا چاہئے
آندھیوں میں گھِر گیا ہوں اب کنارا چاہئے

کم سِنی کا خوف تھا پر ساتھ تو دیتے مرا
"ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا چاہئے"


لڑ نہ پاؤں گا کہ دنیا بھر کے غم ہیں سامنے
ساتھ مجھ تنہا کو اب ہر دم تمہارا چاہئے

کس کو ہوگی جان کی پرواہ پھر اے جانِ جاں
اک ذرا بس تیری نظروں کا اشارا چاہئے


عشق ہے دیوانگی کا نام دُوجا دوستو
جس کو چاہیں ہر گھڑی اس کا نظارا چاہئے


جس قدر بھی اس میں ہوں طغیانیاں ارشد ملک
ہم کو اس دریا میں بس چاہت کا دھارا چاہئے