لا پِلا ساقی، شرابِ ارغوانی پھر کہاں
زندگانی پھر کہاں، ناداں جوانی پھر کہاں؟
دو گھڑی مل بیٹھنے کو بھی غنیمت جانیے
عُمر فانی ہی سہی، یہ عُمرِ فانی پھر کہاں؟
آ کہ ہم بھی اِک ترانہ جُھوم کر گاتے چلیں
اِس چمن کے طائروں کی ہم زبانی پھر کہاں؟
ایک ہی بستی میں ہیں، آساں ہے ملنا، آ ملو
کیا خبر لے جائے، دورِ آسمانی پھر کہاں؟
فصلِ گُل جانے کو ہے، دَورِ خزاں آنے کو ہے
یہ چمن، یہ بُلبُلیں، یہ نغمہ خوانی پھر کہاں؟
آج آئے ہو تو سُنتے جاؤ، یہ تازہ غزل
ورنہ اختر پھر کہاں، یہ شعر خوانی پھر کہاں؟