میں نے دیکھا ہے یہ ہر روز سحر سے پہلے
پھول آتے ہیں گلستان میں بشر سے پہلے
کیسے ملے ہم کو ہیں اُنہی میں شامل
لُٹ گئے لوگ جو آغاز سفر سے پہلے
آخری میں ہی پہنچا تھا جو اُن کے در پر
لوگ پہنچے تھے مرے خون جگر سے پہلے
ہم نے واللہ سوا تیرے کسی شخص کو بھی
کبھی نہیں دیکھا الفت کی نظر سے پہلے
دیس دوری کے سبب تلخی سی ہے عادت میں
ایسے ہرگز نہ تھے محرومی در سے پہلے
آج ہر حال میں اعلان وفا کرنا ہے
کرسکے جس کو نہ ہم شاہ کے ڈر سے پہلے
میرے ماں باپ مری جان ہو اُن پر قربان
حرز جاں ہیں وہ مجھے بنت و پسر سے پہلے
پھڑ پھڑا بھی نہ سکے ذبح کے دوراں شہزاد
اُس نے پر کاٹ کے رکھودیئے سر سے پہلے