جلا پھر صبر کا خرمن، پھر آہوں کا دھواں اٹھّا
ہوا پھر نذرِ صرصر ہر نشیمن کا ہر اِک تنکا
ہوئی پھر صبحِ ماتم آنسوؤں سے بھر گئے دریا
چلا پھر سوئے گردوں کاروانِ نالۂ شب ہا
ہر اِک جانب فضا میں پھر مچا کہرامِ یارب ہا
امڈ آئی کہیں سے پھر گھٹا وحشی زمانوں کی
فضا میں بجلیاں لہرائیں پھر سے تازیانوں کی
قلم ہونے لگی گردن قلم کے پاسبانوں کی
کھلا نیلام ذہنوں کا، لگی بولی زبانوں کی
لہو دینے لگا ہر اِک دہن میں بخیہِ لب ہا
چلا پھر سوئے گردوں کاروانِ نالۂ شب ہا
ستم کی آگ کا ایندھن بنے دل پھر سے، دادلہا!
یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں خداوندا
بنا پھرتا ہے ہر اِک مدّعی پیغام بر تیرا
ہر اِک بت کو صنم خانے میں دعویٰ ہے خدائی کا
خدا محفوظ رکھے از خداوندانِ مذہب ہا
چلا پھر سوئے گردوں کاروانِ نالۂ شب ہا