خوشبو جیسے لوگ ملے اÙسانے میں
ایک پرانا خط کھولا انجانے میں
جانے کس کا ذکر تھا اس اÙسانے میں
درد مزے لیتا ÛÛ’ جو دÛرانے میں
شام Ú©Û’ سائے بالشتوں سے ناپے Ûیں
چاند نے کتنی دیر لگادی آنے میں
رات گذرتے شاید تھوڑا وقت لگے
ذرا سی دھوپ انڈیل میرے پیمانے میں
دل پر دستک دینے کون Ø¢ نکلا ÛÛ’
کس Ú©ÛŒ Ø¢ÛÙ¹ سنتا ÛÙˆÚº ویرانے میں