خواب کے گاؤں میں پلے ہیں ہم​

پانی چَھلنی میں لے چلے ہیں ہم​

چھاچھ پھونکیں کہ اپنے بچپن میں​
دودھ سے کس طرح جلے ہیں ہم​

خود ہیں اپنے سفر کی دشواری​
اپنے پیروں کے آبلے ہیں ہم​

تُو تَو مت کہہ ہمیں بُرا دنیا​
تُو نے ڈھالا ہے اور ڈھلے ہیں ہم​

کیوں ہیں، کب تک ہیں، کس کی خاطر ہیں​
بڑے سنجیدہ مسئلے ہیں ہم​