اپنے ہی شب و روز میں آباد رہا کر​

ہم لوگ بُرے لوگ ہیں، ہم سے نہ ملا کر​


شاید کسی آواز کی خوشبو نظر آئے​
آنکھیں ہیں تو خوابوں کی تمنا بھی کیا کر​

باتوں کے لیے شکوہ موسم ہی بہت ہے​
کچھ اور کسی سے نہ کہا کر نہ سُنا کر​

سونے دے انھیں رنگ جو سوئے ہیں بدن میں​
آوارہ ہواؤں کو نہ محسوس کیا کر​

تو صبح بہاراں کا حسین خواب ہے پھر بھی​
آہستہ ذرا اوس کی بوندوں پہ چلا کر​