اب بھی اس کے خط آتے ہیں
بھیگے بھیگے اور بھینے جادو میں لپٹے
موسم ، خوشبو، گھر والوں کی باتیں کرکے، اپنے دل کا حال
سبھاؤ سے لکھتی ہے
اب بھی اُس کے سب لفظوں سے کچے جذبے پھوٹ آتے ہیں
اب بھی اُس کے خط میں موسم گیت سنانے لگ جاتے ہیں
اب بھی دھوپ نکل آتی ہے بادل چھانے لگ جاتے ہیں
اب بھی اُس کے جسم کی خوشبو ہاتھوں سے ہوکر لفظوں تک
اور پھر مجھ تک آجاتی ہے
اب بھی اس کے خط میں اکثر چاند ابھرنے لگ جاتا ہے
شام اترے تو ان لفظوں میں سورج ڈوبنے لگ جاتا ہے
اب بھی اس کے خط پڑھ کر کچھ مجھ میں ٹوٹنے لگ جاتا ہے
اب بھی خط کے اک کونے میں وہ اک دیپ جلا دیتی ہے
اب بھی میرے نام پہ اپنے اُجلے ہونٹ بنادیتی ہے
اب بھی اُس کے خط آتے ہیں
بھیگے بھیگے اور بھینے جادو میں لپٹے
اب بھی اُس کے خط آتے ہیں۔ ۔ ۔