Ø+ضرت شیخ* سعدی فرماتے ہیں
ایک غلام عجمی ایک کشتی میں بیٹھا جا رہا تھا ۔ اس نے پہلے کبھی دریا کی صورت نہ دیکھی تھی ۔ بیچ دھارے کے کشتی پر موجوں کے تھپیڑے جو پڑے تو لگا چیکھنے چلانے اور واویلا مچانے ۔ ہر چند لوگوں نے دلاسا دیا ، پکڑ پکڑ کر بٹھایا لیکن۔


کسی صورت نہ دل کی بیقراری کو قرار آیا


ایک دانا بھی کشتی میں بیٹھا تھا ۔شیخ سعدی Ú©Û’ زمانے میں* دانا اسی طرØ+ جابجا موجود رھتے تھے جس طرØ+ ہر بس میں ایک کنڈکٹر اور ہر Ù…Ø+Ú©Ù…Û’ میں ایک افسر تعلقات عامہ ہوتا ہے۔اس Ù†Û’ لوگوں Ú©ÛŒ طرف داد طلب نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ اگر تم لوگ کہو تو میں ایک ترکیب سے اسے ابھی خاموش کرا دوں؟


مسافر بےلطف ہو رہے تھے فارسی میں*بولے ”ازیں*چہ بہتر“ اس پر اس Ù†Û’ مسافر مذکورہ Ú©Ùˆ دریا میں *پھینکوا دیا اور جب وہ چند غوطے کھا کر ادھ موا ہو گیا تو ملاØ+ÙˆÚº* سے کہا کہ اب اسے کشتی میں گھسیٹ لاؤ۔ اØ+تیاط کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ ملاØ+ÙˆÚº* سے پوچھ لیتا کہ بھائیو تمہیں تیرنا بھی آتا ہے؟ فرض* کیجئیے اگر وہ تیراکی میں* اس دانا Ú©ÛŒ طرØ+ اور ہماری طرØ+ کورے ہوتے تو غضب ہو جاتا دانا صاØ+ب Ú©ÛŒ بھد ہو جاتی۔ مقدمہ الگ ان پر چلتا لیکن خیر ایک ملاØ+ اسے کشتی Ú©Û’ قریب گھسیٹ لایا وہ شخص دونوں ہاتھوں سے کشتی Ú©Û’ Ú©Û’ کنارے Ú©Ùˆ Ù¾Ú©Ú‘ کر اس پر سوار ہوگیا اور آرام سے Ú†Ù¾ چاپ ایک کونے میں*جا بیٹھا Û” لوگوں Ù†Û’ Ø+یران ہو کر پوچھا۔ اس میں بھید کیا ہے؟ اس زمانے میں لوگ عموماً کند ذہن ہوتے تھے، ذرا ذرا سی بات پوچھنے Ú©Û’ لیے داناؤں Ú©Û’ پاس دوڑے Ú†Ù„Û’ جاتے تھے Û”


دانا نے مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے کہا ۔


اے سادہ لوØ+Ùˆ Û” یہ شخص اس سے پہلے نہ غرق ہونے Ú©ÛŒ مصیبت Ú©Ùˆ جانتا تھا نہ کسی Ú©Ùˆ سلامتی کا ذریعہ مانتا تھا ۔اب دونوں* باتوں سے واقف ہو گیا ہے تو آرام سے بیٹھ گیا ہے


ابن انشا کی اردو کی آخری کتاب سے اقتباس