مِرے بس میں ہو تو کبھی کہیں
کوئی شہر ایسا بساؤں میں
جہاں فاختاؤں کی پھڑپھڑاہٹ
سے نغمہ زارِ حیات میں
جھنجھناتی سانسوں کی جھانجھریں
جو چھنک اٹھیں
تو دھنک کے رنگوں میں بھیگ جائیں حواس تک!
جہاں چاند، ماند نہ ہو کبھی
جہاں چاندنی کی ردا بنے
مِری بانجھ دھرتی کے باسیوں کا لباس تک !!
جہاں صرف حکمِ یقیں چلے !
جہاں بے نشاں ہو قیاس تک !!
جہاں آدمی کے نطق و لب پہ
نہ شہرِ یار کا خوف ہو
جہاں سرسرائے نہ آدمی کی رگوں میں کوئی ہراس تک !!!
جہاں وہم ہو نہ دلوں میں وہم کا سہم ہو
جہاں "سچ" کو "سچ" سے ہو واسطہ
جہاں جگنوؤں کو ہوا دکھاتی ہو راستہ
جہاں خوشبوؤں سے بدلتی رُت کو حسد نہ ہو !
جہاں پستیوں سے بلندیوں کو بھی کَد نہ ہو !!
جہاں خواب آنکھوں میں جگمگائیں
تو جسم و جاں کے سبھی دریچوں میں تیرگی کا گزر نہ ہو
کوئی رات ایسی بسر نہ ہو
کہ بشر کو اپنی خبر نہ ہو
جہاں داغ داغ سحر نہ ہو
جہاں کشتیاں ہوں رواں دواں
تو سمندروں میں بھنور نہ ہو
جہاں برگ و بار سے اجنبی
کوئی شاخ کوئی شجر نہ ہو
جہاں چہچہاتے ہوئے پرندوں
کو بارشوں کے عذاب کا ڈر نہ ہو !!
مِرے بس میں ہو تو کبھی کہیں
کوئی شہر ایسا بساؤں میں
جہاں تیری میری محبتوں پہ
غمِ جہاں کا اثر نہ ہو
رہ و رسمِ دنیا کی بندشیں
غمِ ذات کے سبھی ذائقے
سمِ کائنات کی تلخیاں
کسی آنکھ کو بھی نہ چھو سکیں
جہاں میری سانس کی تازگی
تری چاہتوں کے کنول میں ہو
تیرا حسن میری غزل میں ہو
جہاں کائنات کی اِک صدی
شب و روز کے کسی پَل میں ہو
جہاں نوحہ غمِ زندگی
مری ہچکیوں سے عیاں نہ ہو
جہاں لوحِ خاک پہ عمر بھر
کسی بے گناہ کے خون کا
کوئی داغ، کوئی نشاں نہ ہو !!
کوئی شہر ایسا کبھی۔۔۔۔۔۔۔کہیں!!
جہاں دھوپ چھاؤں گلے ملیں
جہاں بانجھ رُت میں بھی گُل کھلیں
جہاں چاک ہو کوئی پیرہن
نہ سخنوروں کی زباں کٹے
نہ ضمیرِ لوح و قلم ہو صیدِ ستمگراں !
نہ گداگری کا رواج ہو
نہ سپاہ و لشکرِ اہلِ حرف کے لَب سلیں !!
کوئی شہر ایسا کبھی۔۔۔۔۔۔کہیں!!
جہاں چاہتوں کے ہجوم میں
کبھی گیت امن کے گاؤں۔۔۔۔۔۔میں !
جہاں زندگی کا رجز پڑھوں
جہاں بے خلل گنگناؤں میں !!
جہاں موج موج کی اوٹ میں
تو کرن بنے، مسکراؤں میں !!!
مرے بس میں ہو تو کبھی کہیں
کوئی شہر ایسا بساؤں میں