Results 1 to 4 of 4

Thread: قرآن کا پیغام

  1. #1
    *jamshed*'s Avatar
    *jamshed* is offline کچھ یادیں ،کچھ باتیں
    Join Date
    Oct 2010
    Location
    every heart
    Posts
    14,585
    Mentioned
    138 Post(s)
    Tagged
    8346 Thread(s)
    Rep Power
    21474865

    Default قرآن کا پیغام

    قرآن کا پیغام

    اسلام دینِ فطرت ہے، انسانیت Ú©ÛŒ رہنمائی Ú©Û’ لیے قرآن کریم کتاب ہدایت ہے۔ اسلام میں اعمال Ú©ÛŒ بنیاد کلیۃ ایمان پر رکھی گئی ہے۔ اللہ، اُس Ú©ÛŒ کتاب اور رسول اللہ ؐ پر ایمان رکھنے والے پر فرض ہے کہ ہر اُس عمل سے رک جائے جس سے اللہ ناراض ہوتاہے۔ جب صاØ+بِ ایمان Ú©Ùˆ یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ فØ+Ø´ØŒ بدکلامی اور بدکاری Ùˆ Ø+رام کاری سے منع کرتاہے تواُس Ú©Û’ ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ ان ممنوعات سے رک جائے۔ مومن عورت Ú©Ùˆ جب یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ اوراس Ú©Û’ رسول ؐ Ù†Û’ معاشرے میں اُس کا کیامقام اور Ø+یثیت مقرر Ú©ÛŒ ہے تو اُس Ú©Û’ ایمان کا تقاضا ہے کہ برضا ورغبت اپنی اس Ø+یثیت Ú©Ùˆ قبول کرے اور ان Ø+دود سے تجاوز نہ کرے جو شریعت Ù†Û’ اُس Ú©Û’ لیے مقرر کردی ہیں۔

    ماہ رمضان میں روزہ تقویٰ اختیارکرنے کا بہترین ذریعہ ہے، قرآن کریم کتاب انقلاب ہے، ماہ فرقان میں Ø+Ù‚ اور باطل، خیر اور شرکے درمیان فرق سمجھا کر تربیت دینا نظام تربیت کا اصل مقصود ہے۔ اصلاØ+ باطن وہ بنیادی ذریعہ ہے جس سے اللہ Ú©ÛŒ رضا کا Ø+صول اور صراط مستقیم پر استقامت سے چلتے رہنا ممکن ہوجاتاہے۔ اللہ تعالیٰ Ú©ÛŒ رضا Ø+اصل کرنے Ú©Û’ لیے تعلق باللہ انتہائی ضروری ہے۔ اسی لیے انبیائ، صØ+ابہ کرام اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم Ù†Û’ رضائے الٰہی Ú©ÛŒ خاطر ہمیشہ تعلق باللہ کا سہارا لیا۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق انسان Ú©Û’ دل Ú©Ùˆ ماسوا اللہ سے خالی کردیتا ہے۔ اس بندے کا ہر سانس اور ہر عمل خالقِ Ø+قیقی Ú©Û’ لیے ہوتا ہے، اُن کا کلام کرنا، سننا، دیکھنا اور جینا مرنا فقط اللہ تعالیٰ Ú©ÛŒ خاطر ہوجاتا ہے۔ جو بندہ بھی اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق قائم کرنا چاہتا ہے اُسے چاہیے کہ وہ اعمالِ صالØ+ØŒ اللہ تعالیٰ Ú©Û’ لیے اخلاص Ú©Û’ ساتھ کرے اور بُرے کاموں سے اجتناب کرے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوجائے تو ہر قسم Ú©Û’ Ú©Ù¹Ú¾Ù† Ø+الات بھی آسان Ù…Ø+سوس ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    ’’مومنوں Ú©Ùˆ چاہیے کہ ایمان والوںکو Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ کر کافروں Ú©Ùˆ اپنا دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ Ú©ÛŒ Ø+مایت میں نہیں، مگر یہ کہ اُن Ú©Û’ شر سے کسی طرØ+ بچائو مقصود ہو، اور اللہ تمھیں اپنے نفس سے ڈرا رہاہے‘‘۔ (آل عمران :Û²Û¸)
    گناہ کا ارتکاب انسان کو بربادی کی طرف دھکیل دیتاہے، وہ اسباب ووجوہ جن کی وجہ سے انسان گناہوں کی دلدل میں پھنس جاتا ہے اور اُسی دلدل میں پھنسے ہوئے آخر کار ہمیشہ کے لیے تباہ وبرباد ہوجاتا ہے۔ عام طور پر گناہوں کا ارتکاب تین اسباب عورت، مال و دولت، ملکیت زمین کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ گناہ کی مذمت میں رسول اللہ ؐ کے چند ارشادات:۔
    ’’اے مہاجرین Ú©ÛŒ جماعت! پانچ خصلتوں سے بچنے Ú©Û’ لیے میں تمھارے Ø+Ù‚ میں اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتا ہوں (1) جس قوم میں فØ+اشی پھیل جائے اور اس کا ارتکاب علانیہ طور پر ہو تو اللہ تعالیٰ اُن میں طاعون اور ایسی دوسری بیماریاں بھیج دیتا ہے جو اُن Ú©Û’ اسلاف میں نہیں پائی جاتی تھیں۔ (2) جو لوگ پیمائش، تول میں Ú©Ù…ÛŒ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ انھیں Ù‚Ø+Ø· سالی اور معاشی پریشانی میں مبتلا کردیتا ہے اور ظالم Ø+کمران اُن پر مسلط کردیتاہے۔ (3) جو لوگ اپنے اموال Ú©ÛŒ زکوٰۃ دینا بند کردیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برسانا روک دیتاہے اور اگرچوپائے نہ ہوتے تو اُن Ú©Û’ لیے بارش کبھی نہ برستی۔ (4) جو لوگ خلاف عہد کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اُن پر باہر سے کوئی دشمن مسلط کردیتا ہے جو اُن Ú©ÛŒ مملوکہ چیزوں میں سے بعض چیزوں Ú©Ùˆ چھین لیتاہے۔ (5) ایسے لوگوں Ú©Û’ آئمہ، دین الٰہی اور کتاب الٰہی پر عمل پیرا ہونا ترک کر دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُن Ú©Û’ درمیان نزاع پیدا کردیتا ہے۔
    گناہ انسان Ú©Û’ لیے انتہائی مُضر اور خطرناک ہے بلکہ انسان Ú©ÛŒ تباہی اور بربادی کا سب سے بڑا اور قریبی راستہ ہے لہٰذا جو شخص گناہ اور نافرمانی کا ارتکاب کرتا ہے اُسے معاشرتی، معاشی، عملی اور سماجی نقصانات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ گناہوں Ú©Û’ نقصانات میں سے ایک نقصان یہ ہے کہ گناہ گار آدمی علم سے Ù…Ø+روم ہوجاتا ہے۔ علم ایک روشنی ہے جو گناہ Ú©ÛŒ وجہ سے انسان Ú©Û’ دل سے ختم ہوجاتی ہے، گناہ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ دل سے رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ Ú©ÛŒ Ù…Ø+بت اور عظمت وتوقیر قطعاً ختم کردیتا ہے اورآخرکار اُسے ہمیشہ Ú©Û’ لیے ناکام اور نامراد بنادیتا ہے۔ گناہوں Ú©Û’ نقصانات میں سے ایک نقصان یہ بھی ہے کہ گناہ گار آدمی کا دل Ùˆ جان گناہوں Ú©Û’ سبب کمزور Ù¾Ú‘ جاتا ہے۔ ایمان Ú©ÛŒ Ø+رکت عمل صالØ+ Ú©ÛŒ قوت برقرار رکھنے Ú©Û’ لیے اصلاØ+ باطن تربیت کا پہلا مرØ+لہ ہے۔ روزہ میں بندہ مومن بھوک، پیاس، مشقت ومØ+نت برداشت کرتاہے۔ سØ+ری سے افطار تک کھانے پینے سے رک جاتاہے۔ اُس کا ایمان پختہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ ایمان Ú©ÛŒ یہ قوت بندے Ú©Û’ اندر سے پیدا ہوتی ہے۔
    Ø+یا اصلاØ+ باطن Ú©Û’ لیے جامع لفظ ہے۔ Ø+یا Ú©Û’ معنی شرم Ú©Û’ ہیں۔ برائی Ú©Û’ ارتکاب Ú©Û’ لیے انسان میں شرم ہی سدباب کا اہم ذریعہ ہے۔ زنا، چوری، قتل، شراب، جوا، ڈاکہ زنی ایسے جرائم ہیں جو قانون Ú©ÛŒ زد میں آتے ہیں لیکن انسان Ú©Û’ اندر سے پھوٹنے والے جرائم بظاہر کسی قانون Ú©ÛŒ زد میں نہیں آتے لیکن یہ خرابیاں انسان Ú©Ùˆ بڑے گناہوں اور بڑے جرائم Ú©ÛŒ طرف Ù„Û’ جاتی ہیں۔ Ø+قیقت میں اندرکی خرابیوں پر گرفت سے بڑی خرابیوں اور بربادیوں کا راستہ رک سکتاہے، ان خرابیوں سے بندہ خود ہی آگاہ ہے، خود اØ+ساس کر سکتا ہے اور انھیں دبانے Ú©Û’ لیے خود ہی اقدامات کرسکتا ہے۔ انسان Ú©Û’ اندر سے چھوٹی چھوٹی نازک نازک چوریاں کیا ہیں، ان پر گرفت ہی اصلاØ+ باطن ہے۔

    دل کا چور:۔

    قانون Ú©ÛŒ نظر میں زنا کا اطلاق صرف جسمانی افعال پر ہوتا ہے مگر اخلاق Ú©ÛŒ نظر میں دائرہ ازدواج Ú©Û’ باہر صنف مقابل Ú©ÛŒ جانب میلان، ارادے اور نیت Ú©Û’ اعتبار سے زناہے، اجنبی Ú©Û’ Ø+سن سے آنکھ کا لطف لینا، اُس Ú©ÛŒ آواز سے کانوں کا لذت لینا، اُس سے گفتگو کرنے میں زبان کا لطف اندوز ہونا اور اُس Ú©Û’ Ú©ÙˆÚ†Û’ Ú©ÛŒ خاک چھاننے Ú©Û’ لیے قدموں کا بار بار اٹھنا، یہ سب زنا Ú©Û’ مقدمات اور خود معنوی Ø+یثیت سے زنا ہیں۔ قانون اس زنا Ú©Ùˆ نہیں Ù¾Ú©Ú‘ سکتا، یہ دل کا چور ہے اور صرف دل کا کوتوال ہی اس Ú©Ùˆ گرفتار کرسکتاہے۔ رسول اللہ ؐ کا فرمان ہے:
    ’’آنکھیں زنا کرتی ہیں ان کا زنا نظر ہے، اور ہاتھ زنا کرتے ہیں ان کا زنا دست درازی ہے اور پائوں زناکرتے ہیں اور ان کا زنا اسی راہ پر چلنا ہے اور زبان کا زنا گفتگو ہے اور دل کا زنا تمنا اور خواہش ہے، آخر میں صنفی اعضا یا تو ان سب کی تصدیق کردیتے ہیں یا تکذیب۔‘‘
    دل Ú©Û’ چور Ú©Ùˆ چوریوں سے روکنے Ú©Û’ لیے اندر Ú©Û’ ایمان Ú©ÛŒ مضبوطی ناگزیر ہے۔ مفکر اسلام مفسر قرآن مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ Ù†Û’ اصلاØ+ باطن Ú©Û’ Ø+والے سے اپنی مدلل تØ+ریروں میں بہت ہی شاندار طریقے سے بعض اُمور Ú©ÛŒ نشان دہی Ú©ÛŒ ہے، جو اصلاØ+ باطن Ú©Û’ لیے Ø+روفِ ہدایت ہیں ان کا مفہوم یہ ہے۔

    فتنہ نظر:۔

    نفس کا سب سے بڑا چور نگاہ ہے اس لیے قرآن Ùˆ Ø+دیث سب سے پہلے اس Ú©ÛŒ گرفت کرتے ہیں۔ قرآن کہتاہے:
    "اے نبی ؐ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں Ú©ÛŒ Ø+فاظت کریں، یہ اُن Ú©Û’ لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو Ú©Ú†Ú¾ وہ کرتے ہیں، اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے اور اے نبی ؐ ØŒ مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں Ú©ÛŒ Ø+فاظت کریں اور اپنا بنائو سنگھار نہ دکھائیں بجز اس Ú©Û’ جو خود ظاہر ہوجائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں Ú©Û’ آنچل ڈالے رہیں۔ وہ اپنا بنائو سنگھار ظاہرنہ کریں مگر ان لوگوں Ú©Û’ سامنے: شوہر، باپ، شوہروں Ú©Û’ باپ، اپنے بیٹے، شوہروں Ú©Û’ بیٹے، بھائی، بھائیوں Ú©Û’ بیٹے، بہنوں Ú©Û’ بیٹے، اپنے میل جول Ú©ÛŒ عورتیں، اپنے لونڈی غلام، وہ زیر دست مرد جو کسی اور قسم Ú©ÛŒ غرض نہ رکھتے ہوں، اور وہ بچے جو عورتوں Ú©ÛŒ پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔ وہ اپنے پائوں زمین پر نہ مارتی ہوئی چلا کریں کہ اپنی جو زینت انھوںنے چھپا کر رکھی ہو اس کا لوگوں Ú©Ùˆ علم ہوجائے۔‘‘(الن ˆØ±Û³Û°Û”Û³Û±)Û”
    "اے مومنو! تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاØ+ پائو Ú¯Û’Û”"
    رسول اللہ ؐ کا فرمان ہے کہ ’’آدم زادے تیری پہلی نظر تو معاف ہے مگر خبردار دوسری نظر نہ ڈالنا۔‘‘ Ø+ضرت علی Ø“ سے رسول اللہ ؐ Ù†Û’ فرمایا: اے علیؓ ایک نظر Ú©Û’ بعد دوسری نظر نہ ڈالو، پہلی نظر تو معاف ہے، دوسری نظر نہیں۔ Ø+ضرت جابر Ø“ Ù†Û’ دریافت کیا: اچانک نظر Ù¾Ú‘ جائے تو کیا کروں، تو رسول اللہ ؐ Ù†Û’ فرمایا: فوراً نظر پھیر لو۔‘‘

    جذبہ نمائش Ø+سن:Û”

    فتنہ نظر کا ایک شاخسانہ وہ بھی ہے جو عورت Ú©Û’ دل میں یہ خواہش پیداکرتاہے کہ اُس کا Ø+سن دیکھاجائے۔ یہ خواہش ہمیشہ جلی اور نمایاں ہی نہیں ہوتی دل Ú©Û’ پردوں میںکہیں نہ کہیں نمایش Ø+ُسن کا جذبہ چھپا ہوتا ہے اور وہی لباس Ú©ÛŒ زینت میں، بالوں Ú©ÛŒ آرایش میں، باریک اور شوخ Ú©Ù¾Ú‘ÙˆÚº Ú©Û’ انتخاب میں اور ایسی ایسی جزئیات تک میں اپنا اثر ظاہر کرتا ہے جن کا اØ+اطہ ممکن نہیں۔ قرآن ان سب Ú©Û’ لیے تبرجِ جاہلیت Ú©ÛŒ جامع اصطلاØ+ استعمال کرتا ہے۔ ہر وہ زینت اور ہر وہ آرائش جس کا مقصد شوہر Ú©Û’ سوا دوسروں Ú©Û’ لیے لذت نظر بننا ہوتبرج جاہلیت Ú©ÛŒ تعریف میں آجاتی ہے۔ اگر برقع بھی اس غرض Ú©Û’ لیے خوبصورت اور خوش رنگ انتخاب کیا جائے کہ نگاہیں اس سے لذت یاب ہو Úº تو یہ بھی تبرج جاہلیت ہے۔ اس Ú©Û’ لیے کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا ۔اس کا تعلق عورت Ú©Û’ اپنے ضمیر سے ہے۔ اس کا خود ہی اپنے دل کا Ø+ساب لینا چاہیے کہ اس میں کہیں یہ ناپاک جذبہ تو چھپا ہوا نہیں ہے۔ اس کا تدارک مومنہ عورت خود ہی کرسکتی ہے۔
    فتنہ زبان:
    شیطان نفس کا اہم ترین ایجنٹ زبان ہے۔ کتنے ہی فتنے ہیں جو زبان Ú©Û’ ذریعے پیدا ہوتے ہیں اور پھیلتے جاتے ہیں۔ مرد اور عورت بات کر رہے ہوں تو کوئی بُرا جذبہ نمایاں نہیں ہوتا مگر دل میں چھپا چور زبان میں Ø+لاوت اور باتوں میں گھلاوٹ پیدا کیے جارہا ہے۔ قرآن اس چور Ú©Ùˆ Ù¾Ú©Ú‘ لیتا ہے۔ (سورۃ الاØ+زاب Û³Û²Û”Û³Û³)Û”
    ’’اگر تمھارے دل میں خوف ہے تو دبی زبان میں بات نہ کرو کہ جس شخص Ú©Û’ دل میں بدنیتی Ú©ÛŒ بیماری ہو تو وہ تم سے Ú©Ú†Ú¾ اُمیدیں وابستہ کرے گا۔ بات کرو تو سیدھے سادے طریقے سے کرو(جس طرØ+ انسان، انسان سے بات کیا کرتاہے)Û”
    یہی دل کا Ú†Ùˆ ر ہے جو جائز ناجائز بنیادوں پر صنفی تعلقات کا Ø+ال بیان کرنے میں بھی مزے لیتا ہے اور سننے میں بھی۔ یہ دل کا چور معاشرے میں ناجائز اعمال Ú©Û’ ذریعے Ú©Ùˆ عام کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ فتنہ زبان Ú©Û’ کئی شعبے ہیں اور ہر شعبے میں دل کا ایک نہ ایک چور اپنا کام کرتا ہے۔ اسلام Ù†Û’ ان سب کا سراغ لگایا ہے اور ان سے خبرد ار کیا ہے۔ عورت Ú©Ùˆ اجازت نہیںکہ اپنے شوہر سے دوسری عورتوں Ú©ÛŒ کیفیات بیان کرے۔ عورت اور مرد Ú©Ùˆ اس سے منع کیا گیاہے کہ اپنے پوشیدہ ازدواجی معاملات کاØ+ال دوسرے لوگوں Ú©Û’ سامنے بیان کریں کیوں کہ اس سے بھی فØ+Ø´ Ú©ÛŒ اشاعت ہوتی ہے اور دلوں میں شوق پیدا ہوتاہے۔

    فتنہ خوشبو:۔
    خوشبو بھی ایسا فتنہ ہے جو ایک نفسِ شریرکا پیغام دوسرے نفس شریر تک پہنچاتا ہے۔ جسے جتنا بھی خفیف جانا جائے مگر اسلامی Ø+یا اتنی Ø+ساس ہے کہ اس Ú©ÛŒ طبع پر یہ لطیف تØ+ریک بھی گراںگزرتی ہے۔ مسلمان عورت Ú©Û’ لیے جائز نہیں کہ خوشبو میں بسے Ú©Ù¾Ú‘Û’ پہن کر راستوں سے گزرے یا Ù…Ø+فلوں میں شرکت کرے کیوں کہ اُس کا Ø+سن اور زینت پوشیدہ بھی رہی تو کیا فائدہ ہوا۔ اُس Ú©ÛŒ عطریت تو فضا میں پھیل کر جذبات Ú©Ùˆ متØ+رک کر رہی ہے۔ رسول اللہ ؐ کا فرمان ہے کہ جو عورت عطر لگا کرلوگوں Ú©Û’ درمیان سے گزرتی ہے وہ آوارہ قسم Ú©ÛŒ عورت ہے۔ جب کوئی عورت مسجدوں میں جائے تو خوشبو نہ لگائے۔ ’’مردوں Ú©Û’ لیے وہ عطر مناسب ہے جس Ú©ÛŒ خوشبو نمایاں اور رنگ مخفی ہو اور عورتوں Ú©Û’ لیے وہ عطر مناسب ہے جس کا رنگ نمایاں اور خوشبو مخفی ہو۔‘‘

    فتنہ عریانی:۔

    عریانی ایسی ناشایستگی ہے جس Ú©Ùˆ اسلامی Ø+یا کسی Ø+ال میں بھی برداشت نہیں کرتی۔ غیر تو غیر اسلام اس Ú©Ùˆ بھی پسند نہیں کرتا کہ میاں اور بیوی ایک دوسرے Ú©Û’ سامنے برہنہ ہوں۔ اسلام Ù†Û’ انسانی شرم ÙˆØ+یا Ú©ÛŒ صØ+ÛŒØ+ اور مکمل نفسیاتی تعبیر Ú©ÛŒ ہے جس Ú©ÛŒ مثال کسی تہذیب Ú©Û’ بس میں نہیں۔ اُم المؤمنین Ø+ضرت عائشہ Ø“ فرماتی ہیں کہ ’’میں Ù†Û’ رسول اللہ ؐ Ú©Ùˆ کبھی برہنہ نہیںدیکھا۔‘‘ اس سے بڑھ کر شرم Ùˆ Ø+یا یہ ہے کہ تنہائی میں بھی عریاں رہنا اسلام Ú©Ùˆ گوارا نہیں۔ Ø+دیث میں آتاہے کہ ’’خبردار کبھی برہنہ نہ رہو کیونکہ تمھارے ساتھ خدا Ú©Û’ فرشتے Ù„Ú¯Û’ ہیں جو تم سے جدا نہیں ہوتے۔‘‘ اسلام Ú©ÛŒ نگاہ میں وہ لباس ہی نہیں ہے جس سے بدن جھلکے اور ستر نمایاں ہو۔ اس Ú©ÛŒ روشنی میں دیکھیں تو اسلام کا معیار اخلاق اور اخلاقی اقدار Ú©ÛŒ اہمیت کا اØ+ساس ہوجاتاہے۔ اسلام معاشرے Ú©Û’ ماØ+ول Ú©Ùˆ فØ+Ø´ اور منکر Ú©ÛŒ تمام تØ+ریکات سے پاک کردینا چاہتا ہے۔ ان تØ+ریکات کا سرچشمہ انسان Ú©Û’ باطن میں ہے۔
    اسلام Ú©ÛŒ تعلیم ِاخلاق، باطن میں ہی Ø+یا کا اتنا زبردست اØ+ساس پیدا کردینا چاہتی ہے کہ انسان خود اپنے نفس کا اØ+تساب کرتا رہے۔ اور برائی Ú©ÛŒ جانب ادنیٰ سے ادنیٰ میلان بھی اگر پایا جائے تواُس Ú©Ùˆ Ù…Ø+سوس کرکے وہ آپ ہی اپنی قوت ارادی سے اس کا خاتمہ کردے۔ روزہ اور قرآن تقویٰ Ú©ÛŒ صفت پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ اصلاØ+ ِباطن ہی سے تقویٰ اور رب Ú©ÛŒ رضا Ú©Û’ تقاضے پورے ہوسکتے ہیں۔


  2. #2
    Join Date
    Nov 2013
    Location
    Mama ki Agoosh
    Age
    31
    Posts
    92
    Mentioned
    0 Post(s)
    Tagged
    1346 Thread(s)
    Rep Power
    0

    Default Re: قرآن کا پیغام

    Quote Originally Posted by *jamshed* View Post
    قرآن کا پیغام

    اسلام دینِ فطرت ہے، انسانیت Ú©ÛŒ رہنمائی Ú©Û’ لیے قرآن کریم کتاب ہدایت ہے۔ اسلام میں اعمال Ú©ÛŒ بنیاد کلیۃ ایمان پر رکھی گئی ہے۔ اللہ، اُس Ú©ÛŒ کتاب اور رسول اللہ ؐ پر ایمان رکھنے والے پر فرض ہے کہ ہر اُس عمل سے رک جائے جس سے اللہ ناراض ہوتاہے۔ جب صاØ+بِ ایمان Ú©Ùˆ یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ فØ+Ø´ØŒ بدکلامی اور بدکاری Ùˆ Ø+رام کاری سے منع کرتاہے تواُس Ú©Û’ ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ ان ممنوعات سے رک جائے۔ مومن عورت Ú©Ùˆ جب یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ اوراس Ú©Û’ رسول ؐ Ù†Û’ معاشرے میں اُس کا کیامقام اور Ø+یثیت مقرر Ú©ÛŒ ہے تو اُس Ú©Û’ ایمان کا تقاضا ہے کہ برضا ورغبت اپنی اس Ø+یثیت Ú©Ùˆ قبول کرے اور ان Ø+دود سے تجاوز نہ کرے جو شریعت Ù†Û’ اُس Ú©Û’ لیے مقرر کردی ہیں۔

    ماہ رمضان میں روزہ تقویٰ اختیارکرنے کا بہترین ذریعہ ہے، قرآن کریم کتاب انقلاب ہے، ماہ فرقان میں Ø+Ù‚ اور باطل، خیر اور شرکے درمیان فرق سمجھا کر تربیت دینا نظام تربیت کا اصل مقصود ہے۔ اصلاØ+ باطن وہ بنیادی ذریعہ ہے جس سے اللہ Ú©ÛŒ رضا کا Ø+صول اور صراط مستقیم پر استقامت سے چلتے رہنا ممکن ہوجاتاہے۔ اللہ تعالیٰ Ú©ÛŒ رضا Ø+اصل کرنے Ú©Û’ لیے تعلق باللہ انتہائی ضروری ہے۔ اسی لیے انبیائ، صØ+ابہ کرام اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم Ù†Û’ رضائے الٰہی Ú©ÛŒ خاطر ہمیشہ تعلق باللہ کا سہارا لیا۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق انسان Ú©Û’ دل Ú©Ùˆ ماسوا اللہ سے خالی کردیتا ہے۔ اس بندے کا ہر سانس اور ہر عمل خالقِ Ø+قیقی Ú©Û’ لیے ہوتا ہے، اُن کا کلام کرنا، سننا، دیکھنا اور جینا مرنا فقط اللہ تعالیٰ Ú©ÛŒ خاطر ہوجاتا ہے۔ جو بندہ بھی اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق قائم کرنا چاہتا ہے اُسے چاہیے کہ وہ اعمالِ صالØ+ØŒ اللہ تعالیٰ Ú©Û’ لیے اخلاص Ú©Û’ ساتھ کرے اور بُرے کاموں سے اجتناب کرے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوجائے تو ہر قسم Ú©Û’ Ú©Ù¹Ú¾Ù† Ø+الات بھی آسان Ù…Ø+سوس ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
    ’’مومنوں Ú©Ùˆ چاہیے کہ ایمان والوںکو Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ کر کافروں Ú©Ùˆ اپنا دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ Ú©ÛŒ Ø+مایت میں نہیں، مگر یہ کہ اُن Ú©Û’ شر سے کسی طرØ+ بچائو مقصود ہو، اور اللہ تمھیں اپنے نفس سے ڈرا رہاہے‘‘۔ (آل عمران :Û²Û¸)
    گناہ کا ارتکاب انسان کو بربادی کی طرف دھکیل دیتاہے، وہ اسباب ووجوہ جن کی وجہ سے انسان گناہوں کی دلدل میں پھنس جاتا ہے اور اُسی دلدل میں پھنسے ہوئے آخر کار ہمیشہ کے لیے تباہ وبرباد ہوجاتا ہے۔ عام طور پر گناہوں کا ارتکاب تین اسباب عورت، مال و دولت، ملکیت زمین کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ گناہ کی مذمت میں رسول اللہ ؐ کے چند ارشادات:۔
    ’’اے مہاجرین Ú©ÛŒ جماعت! پانچ خصلتوں سے بچنے Ú©Û’ لیے میں تمھارے Ø+Ù‚ میں اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتا ہوں (1) جس قوم میں فØ+اشی پھیل جائے اور اس کا ارتکاب علانیہ طور پر ہو تو اللہ تعالیٰ اُن میں طاعون اور ایسی دوسری بیماریاں بھیج دیتا ہے جو اُن Ú©Û’ اسلاف میں نہیں پائی جاتی تھیں۔ (2) جو لوگ پیمائش، تول میں Ú©Ù…ÛŒ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ انھیں Ù‚Ø+Ø· سالی اور معاشی پریشانی میں مبتلا کردیتا ہے اور ظالم Ø+کمران اُن پر مسلط کردیتاہے۔ (3) جو لوگ اپنے اموال Ú©ÛŒ زکوٰۃ دینا بند کردیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برسانا روک دیتاہے اور اگرچوپائے نہ ہوتے تو اُن Ú©Û’ لیے بارش کبھی نہ برستی۔ (4) جو لوگ خلاف عہد کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اُن پر باہر سے کوئی دشمن مسلط کردیتا ہے جو اُن Ú©ÛŒ مملوکہ چیزوں میں سے بعض چیزوں Ú©Ùˆ چھین لیتاہے۔ (5) ایسے لوگوں Ú©Û’ آئمہ، دین الٰہی اور کتاب الٰہی پر عمل پیرا ہونا ترک کر دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُن Ú©Û’ درمیان نزاع پیدا کردیتا ہے۔
    گناہ انسان Ú©Û’ لیے انتہائی مُضر اور خطرناک ہے بلکہ انسان Ú©ÛŒ تباہی اور بربادی کا سب سے بڑا اور قریبی راستہ ہے لہٰذا جو شخص گناہ اور نافرمانی کا ارتکاب کرتا ہے اُسے معاشرتی، معاشی، عملی اور سماجی نقصانات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ گناہوں Ú©Û’ نقصانات میں سے ایک نقصان یہ ہے کہ گناہ گار آدمی علم سے Ù…Ø+روم ہوجاتا ہے۔ علم ایک روشنی ہے جو گناہ Ú©ÛŒ وجہ سے انسان Ú©Û’ دل سے ختم ہوجاتی ہے، گناہ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ دل سے رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ Ú©ÛŒ Ù…Ø+بت اور عظمت وتوقیر قطعاً ختم کردیتا ہے اورآخرکار اُسے ہمیشہ Ú©Û’ لیے ناکام اور نامراد بنادیتا ہے۔ گناہوں Ú©Û’ نقصانات میں سے ایک نقصان یہ بھی ہے کہ گناہ گار آدمی کا دل Ùˆ جان گناہوں Ú©Û’ سبب کمزور Ù¾Ú‘ جاتا ہے۔ ایمان Ú©ÛŒ Ø+رکت عمل صالØ+ Ú©ÛŒ قوت برقرار رکھنے Ú©Û’ لیے اصلاØ+ باطن تربیت کا پہلا مرØ+لہ ہے۔ روزہ میں بندہ مومن بھوک، پیاس، مشقت ومØ+نت برداشت کرتاہے۔ سØ+ری سے افطار تک کھانے پینے سے رک جاتاہے۔ اُس کا ایمان پختہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ ایمان Ú©ÛŒ یہ قوت بندے Ú©Û’ اندر سے پیدا ہوتی ہے۔
    Ø+یا اصلاØ+ باطن Ú©Û’ لیے جامع لفظ ہے۔ Ø+یا Ú©Û’ معنی شرم Ú©Û’ ہیں۔ برائی Ú©Û’ ارتکاب Ú©Û’ لیے انسان میں شرم ہی سدباب کا اہم ذریعہ ہے۔ زنا، چوری، قتل، شراب، جوا، ڈاکہ زنی ایسے جرائم ہیں جو قانون Ú©ÛŒ زد میں آتے ہیں لیکن انسان Ú©Û’ اندر سے پھوٹنے والے جرائم بظاہر کسی قانون Ú©ÛŒ زد میں نہیں آتے لیکن یہ خرابیاں انسان Ú©Ùˆ بڑے گناہوں اور بڑے جرائم Ú©ÛŒ طرف Ù„Û’ جاتی ہیں۔ Ø+قیقت میں اندرکی خرابیوں پر گرفت سے بڑی خرابیوں اور بربادیوں کا راستہ رک سکتاہے، ان خرابیوں سے بندہ خود ہی آگاہ ہے، خود اØ+ساس کر سکتا ہے اور انھیں دبانے Ú©Û’ لیے خود ہی اقدامات کرسکتا ہے۔ انسان Ú©Û’ اندر سے چھوٹی چھوٹی نازک نازک چوریاں کیا ہیں، ان پر گرفت ہی اصلاØ+ باطن ہے۔

    دل کا چور:۔

    قانون Ú©ÛŒ نظر میں زنا کا اطلاق صرف جسمانی افعال پر ہوتا ہے مگر اخلاق Ú©ÛŒ نظر میں دائرہ ازدواج Ú©Û’ باہر صنف مقابل Ú©ÛŒ جانب میلان، ارادے اور نیت Ú©Û’ اعتبار سے زناہے، اجنبی Ú©Û’ Ø+سن سے آنکھ کا لطف لینا، اُس Ú©ÛŒ آواز سے کانوں کا لذت لینا، اُس سے گفتگو کرنے میں زبان کا لطف اندوز ہونا اور اُس Ú©Û’ Ú©ÙˆÚ†Û’ Ú©ÛŒ خاک چھاننے Ú©Û’ لیے قدموں کا بار بار اٹھنا، یہ سب زنا Ú©Û’ مقدمات اور خود معنوی Ø+یثیت سے زنا ہیں۔ قانون اس زنا Ú©Ùˆ نہیں Ù¾Ú©Ú‘ سکتا، یہ دل کا چور ہے اور صرف دل کا کوتوال ہی اس Ú©Ùˆ گرفتار کرسکتاہے۔ رسول اللہ ؐ کا فرمان ہے:
    ’’آنکھیں زنا کرتی ہیں ان کا زنا نظر ہے، اور ہاتھ زنا کرتے ہیں ان کا زنا دست درازی ہے اور پائوں زناکرتے ہیں اور ان کا زنا اسی راہ پر چلنا ہے اور زبان کا زنا گفتگو ہے اور دل کا زنا تمنا اور خواہش ہے، آخر میں صنفی اعضا یا تو ان سب کی تصدیق کردیتے ہیں یا تکذیب۔‘‘
    دل Ú©Û’ چور Ú©Ùˆ چوریوں سے روکنے Ú©Û’ لیے اندر Ú©Û’ ایمان Ú©ÛŒ مضبوطی ناگزیر ہے۔ مفکر اسلام مفسر قرآن مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ Ù†Û’ اصلاØ+ باطن Ú©Û’ Ø+والے سے اپنی مدلل تØ+ریروں میں بہت ہی شاندار طریقے سے بعض اُمور Ú©ÛŒ نشان دہی Ú©ÛŒ ہے، جو اصلاØ+ باطن Ú©Û’ لیے Ø+روفِ ہدایت ہیں ان کا مفہوم یہ ہے۔

    فتنہ نظر:۔

    نفس کا سب سے بڑا چور نگاہ ہے اس لیے قرآن Ùˆ Ø+دیث سب سے پہلے اس Ú©ÛŒ گرفت کرتے ہیں۔ قرآن کہتاہے:
    "اے نبی ؐ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں Ú©ÛŒ Ø+فاظت کریں، یہ اُن Ú©Û’ لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو Ú©Ú†Ú¾ وہ کرتے ہیں، اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے اور اے نبی ؐ ØŒ مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں Ú©ÛŒ Ø+فاظت کریں اور اپنا بنائو سنگھار نہ دکھائیں بجز اس Ú©Û’ جو خود ظاہر ہوجائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں Ú©Û’ آنچل ڈالے رہیں۔ وہ اپنا بنائو سنگھار ظاہرنہ کریں مگر ان لوگوں Ú©Û’ سامنے: شوہر، باپ، شوہروں Ú©Û’ باپ، اپنے بیٹے، شوہروں Ú©Û’ بیٹے، بھائی، بھائیوں Ú©Û’ بیٹے، بہنوں Ú©Û’ بیٹے، اپنے میل جول Ú©ÛŒ عورتیں، اپنے لونڈی غلام، وہ زیر دست مرد جو کسی اور قسم Ú©ÛŒ غرض نہ رکھتے ہوں، اور وہ بچے جو عورتوں Ú©ÛŒ پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔ وہ اپنے پائوں زمین پر نہ مارتی ہوئی چلا کریں کہ اپنی جو زینت انھوںنے چھپا کر رکھی ہو اس کا لوگوں Ú©Ùˆ علم ہوجائے۔‘‘(الن ˆØ±Û³Û°Û”Û³Û±)Û”
    "اے مومنو! تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاØ+ پائو Ú¯Û’Û”"
    رسول اللہ ؐ کا فرمان ہے کہ ’’آدم زادے تیری پہلی نظر تو معاف ہے مگر خبردار دوسری نظر نہ ڈالنا۔‘‘ Ø+ضرت علی Ø“ سے رسول اللہ ؐ Ù†Û’ فرمایا: اے علیؓ ایک نظر Ú©Û’ بعد دوسری نظر نہ ڈالو، پہلی نظر تو معاف ہے، دوسری نظر نہیں۔ Ø+ضرت جابر Ø“ Ù†Û’ دریافت کیا: اچانک نظر Ù¾Ú‘ جائے تو کیا کروں، تو رسول اللہ ؐ Ù†Û’ فرمایا: فوراً نظر پھیر لو۔‘‘

    جذبہ نمائش Ø+سن:Û”

    فتنہ نظر کا ایک شاخسانہ وہ بھی ہے جو عورت Ú©Û’ دل میں یہ خواہش پیداکرتاہے کہ اُس کا Ø+سن دیکھاجائے۔ یہ خواہش ہمیشہ جلی اور نمایاں ہی نہیں ہوتی دل Ú©Û’ پردوں میںکہیں نہ کہیں نمایش Ø+ُسن کا جذبہ چھپا ہوتا ہے اور وہی لباس Ú©ÛŒ زینت میں، بالوں Ú©ÛŒ آرایش میں، باریک اور شوخ Ú©Ù¾Ú‘ÙˆÚº Ú©Û’ انتخاب میں اور ایسی ایسی جزئیات تک میں اپنا اثر ظاہر کرتا ہے جن کا اØ+اطہ ممکن نہیں۔ قرآن ان سب Ú©Û’ لیے تبرجِ جاہلیت Ú©ÛŒ جامع اصطلاØ+ استعمال کرتا ہے۔ ہر وہ زینت اور ہر وہ آرائش جس کا مقصد شوہر Ú©Û’ سوا دوسروں Ú©Û’ لیے لذت نظر بننا ہوتبرج جاہلیت Ú©ÛŒ تعریف میں آجاتی ہے۔ اگر برقع بھی اس غرض Ú©Û’ لیے خوبصورت اور خوش رنگ انتخاب کیا جائے کہ نگاہیں اس سے لذت یاب ہو Úº تو یہ بھی تبرج جاہلیت ہے۔ اس Ú©Û’ لیے کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا ۔اس کا تعلق عورت Ú©Û’ اپنے ضمیر سے ہے۔ اس کا خود ہی اپنے دل کا Ø+ساب لینا چاہیے کہ اس میں کہیں یہ ناپاک جذبہ تو چھپا ہوا نہیں ہے۔ اس کا تدارک مومنہ عورت خود ہی کرسکتی ہے۔
    فتنہ زبان:
    شیطان نفس کا اہم ترین ایجنٹ زبان ہے۔ کتنے ہی فتنے ہیں جو زبان Ú©Û’ ذریعے پیدا ہوتے ہیں اور پھیلتے جاتے ہیں۔ مرد اور عورت بات کر رہے ہوں تو کوئی بُرا جذبہ نمایاں نہیں ہوتا مگر دل میں چھپا چور زبان میں Ø+لاوت اور باتوں میں گھلاوٹ پیدا کیے جارہا ہے۔ قرآن اس چور Ú©Ùˆ Ù¾Ú©Ú‘ لیتا ہے۔ (سورۃ الاØ+زاب Û³Û²Û”Û³Û³)Û”
    ’’اگر تمھارے دل میں خوف ہے تو دبی زبان میں بات نہ کرو کہ جس شخص Ú©Û’ دل میں بدنیتی Ú©ÛŒ بیماری ہو تو وہ تم سے Ú©Ú†Ú¾ اُمیدیں وابستہ کرے گا۔ بات کرو تو سیدھے سادے طریقے سے کرو(جس طرØ+ انسان، انسان سے بات کیا کرتاہے)Û”
    یہی دل کا Ú†Ùˆ ر ہے جو جائز ناجائز بنیادوں پر صنفی تعلقات کا Ø+ال بیان کرنے میں بھی مزے لیتا ہے اور سننے میں بھی۔ یہ دل کا چور معاشرے میں ناجائز اعمال Ú©Û’ ذریعے Ú©Ùˆ عام کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ فتنہ زبان Ú©Û’ کئی شعبے ہیں اور ہر شعبے میں دل کا ایک نہ ایک چور اپنا کام کرتا ہے۔ اسلام Ù†Û’ ان سب کا سراغ لگایا ہے اور ان سے خبرد ار کیا ہے۔ عورت Ú©Ùˆ اجازت نہیںکہ اپنے شوہر سے دوسری عورتوں Ú©ÛŒ کیفیات بیان کرے۔ عورت اور مرد Ú©Ùˆ اس سے منع کیا گیاہے کہ اپنے پوشیدہ ازدواجی معاملات کاØ+ال دوسرے لوگوں Ú©Û’ سامنے بیان کریں کیوں کہ اس سے بھی فØ+Ø´ Ú©ÛŒ اشاعت ہوتی ہے اور دلوں میں شوق پیدا ہوتاہے۔

    فتنہ خوشبو:۔
    خوشبو بھی ایسا فتنہ ہے جو ایک نفسِ شریرکا پیغام دوسرے نفس شریر تک پہنچاتا ہے۔ جسے جتنا بھی خفیف جانا جائے مگر اسلامی Ø+یا اتنی Ø+ساس ہے کہ اس Ú©ÛŒ طبع پر یہ لطیف تØ+ریک بھی گراںگزرتی ہے۔ مسلمان عورت Ú©Û’ لیے جائز نہیں کہ خوشبو میں بسے Ú©Ù¾Ú‘Û’ پہن کر راستوں سے گزرے یا Ù…Ø+فلوں میں شرکت کرے کیوں کہ اُس کا Ø+سن اور زینت پوشیدہ بھی رہی تو کیا فائدہ ہوا۔ اُس Ú©ÛŒ عطریت تو فضا میں پھیل کر جذبات Ú©Ùˆ متØ+رک کر رہی ہے۔ رسول اللہ ؐ کا فرمان ہے کہ جو عورت عطر لگا کرلوگوں Ú©Û’ درمیان سے گزرتی ہے وہ آوارہ قسم Ú©ÛŒ عورت ہے۔ جب کوئی عورت مسجدوں میں جائے تو خوشبو نہ لگائے۔ ’’مردوں Ú©Û’ لیے وہ عطر مناسب ہے جس Ú©ÛŒ خوشبو نمایاں اور رنگ مخفی ہو اور عورتوں Ú©Û’ لیے وہ عطر مناسب ہے جس کا رنگ نمایاں اور خوشبو مخفی ہو۔‘‘

    فتنہ عریانی:۔

    عریانی ایسی ناشایستگی ہے جس Ú©Ùˆ اسلامی Ø+یا کسی Ø+ال میں بھی برداشت نہیں کرتی۔ غیر تو غیر اسلام اس Ú©Ùˆ بھی پسند نہیں کرتا کہ میاں اور بیوی ایک دوسرے Ú©Û’ سامنے برہنہ ہوں۔ اسلام Ù†Û’ انسانی شرم ÙˆØ+یا Ú©ÛŒ صØ+ÛŒØ+ اور مکمل نفسیاتی تعبیر Ú©ÛŒ ہے جس Ú©ÛŒ مثال کسی تہذیب Ú©Û’ بس میں نہیں۔ اُم المؤمنین Ø+ضرت عائشہ Ø“ فرماتی ہیں کہ ’’میں Ù†Û’ رسول اللہ ؐ Ú©Ùˆ کبھی برہنہ نہیںدیکھا۔‘‘ اس سے بڑھ کر شرم Ùˆ Ø+یا یہ ہے کہ تنہائی میں بھی عریاں رہنا اسلام Ú©Ùˆ گوارا نہیں۔ Ø+دیث میں آتاہے کہ ’’خبردار کبھی برہنہ نہ رہو کیونکہ تمھارے ساتھ خدا Ú©Û’ فرشتے Ù„Ú¯Û’ ہیں جو تم سے جدا نہیں ہوتے۔‘‘ اسلام Ú©ÛŒ نگاہ میں وہ لباس ہی نہیں ہے جس سے بدن جھلکے اور ستر نمایاں ہو۔ اس Ú©ÛŒ روشنی میں دیکھیں تو اسلام کا معیار اخلاق اور اخلاقی اقدار Ú©ÛŒ اہمیت کا اØ+ساس ہوجاتاہے۔ اسلام معاشرے Ú©Û’ ماØ+ول Ú©Ùˆ فØ+Ø´ اور منکر Ú©ÛŒ تمام تØ+ریکات سے پاک کردینا چاہتا ہے۔ ان تØ+ریکات کا سرچشمہ انسان Ú©Û’ باطن میں ہے۔
    اسلام Ú©ÛŒ تعلیم ِاخلاق، باطن میں ہی Ø+یا کا اتنا زبردست اØ+ساس پیدا کردینا چاہتی ہے کہ انسان خود اپنے نفس کا اØ+تساب کرتا رہے۔ اور برائی Ú©ÛŒ جانب ادنیٰ سے ادنیٰ میلان بھی اگر پایا جائے تواُس Ú©Ùˆ Ù…Ø+سوس کرکے وہ آپ ہی اپنی قوت ارادی سے اس کا خاتمہ کردے۔ روزہ اور قرآن تقویٰ Ú©ÛŒ صفت پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ اصلاØ+ ِباطن ہی سے تقویٰ اور رب Ú©ÛŒ رضا Ú©Û’ تقاضے پورے ہوسکتے ہیں۔

    very nice

  3. #3
    Join Date
    Sep 2013
    Location
    Mideast
    Posts
    6,040
    Mentioned
    246 Post(s)
    Tagged
    5075 Thread(s)
    Rep Power
    18

    Default Re: قرآن کا پیغام

    Umda share...............

  4. #4
    Join Date
    Jan 2011
    Location
    pakistan
    Posts
    9,091
    Mentioned
    95 Post(s)
    Tagged
    8378 Thread(s)
    Rep Power
    429520

    Default Re: قرآن کا پیغام

    Jazak Allah Khair

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •