zabardast
تم نے دیکھے ہیں کبھی
شہر کے وسط میں گھڑیال کے روندے ہوئے پل
جن میں چاہت کے ہزاروں قصے
عشق کے سبز اجالے میں کئی زرد بدن
اپنے ہونے کی سزا کاٹ رہے ہیں
تم نے دیکھے نہیں شاید
عشق میں ہارے ہوئے جسم
جسم ایسے جو کبھی پوریں بھی کٹ جائیں
توپھر خوں کی جگہ اشک نکلتے ہیں وہاں
حسرتیں دل میں چھپائے ہوئے کچھ لوگ یہاں
دم بدم بہتی ہوئی آنکھوں سے لکھتے ہیں کہانی
یہ نئی بات نہیں
واقعہ ایک ہے کردار بدل جاتے ہیں
ایک تیشہ ہے مگر وار بدل جاتے ہیں
تیری انگلیاں میرے جسم میںیونہی لمس بن کے گڑی رہیں
کف کوزه گر میری مان لےمجھے چاک سے نہ اتارنا
zabardast
کہاں اتنی سزائیں تھیں بھلا اس زندگانی میں
ہزاروں گھر ہوئے روشن جو میرا دل جلا محسنؔ
umdah !!
umda