ريت سے بھی ديوار اٹھانی پڑ جاتی ہے
دشمن سے بھی آس لگانی پڑ جاتی ہے
سچ پوچھو تو منہ مٹی سے بھر جاتا ہے
گری ہوئی جب بات اٹھانی پڑ جاتی ہے
بات زباں کے بس سے باہر ہو جائے تو
آنکھوں سے آواز لگانی پڑ جاتی ہے
تيرے ہاتھ کا لمس ميسّر آجائے تو
ميرے کاموں ميں آسانی پڑ جاتی ہے
اکثر فکر و فہم کے ناديدہ رَخنوں سے
نئے سخن ميں بات پرانی پڑ جاتی ہے
صحراؤں سے يارانے پر تُل جائيں تو
درياؤں کی خير منانی پڑ جاتی ہے
ايسے بھی کچھ دکھ ہوتے ہيں، جنکی خاطر
خوشيوں کو بھی آگ لگانی پڑ جاتی ہے