جو بھی کہنا ہے کہو، پھر ان کہا رہ جائے گا
قربتوں کے درمیاں بھی فاصلہ رہ جائے گا

وہ گزر جائے گا ان رستوں سے مثلِ بادِ صبا
اور تو ان رہگزاروں میں کھڑا رہ جائے گا

بند کانوں سے سنے گا تو کھنکتی گفتگو
بھیگی آنکھوں سے اُسے بس دیکھتا رہ جائے گا

چھین Ù„Û’ Ú¯ÛŒ صبØ+ اِک آہٹ کا جھوٹا خواب بھی
آنکھ کی سُونی گلی میں رت جگا رہ جائے گا

تتلیاں ہجرت کریں گی موسموں کے ساتھ ساتھ
اور شہرِ گُل میں آشوبِ ہوا رہ جائے گا

بادلوں سے آگ برسے گی فضائے شہر پر
نقش مٹ جائیں گے، اِک نقشِ فنا رہ جائے گا

عطاء الØ+Ù‚ قاسمی