’ڈاکٹر صاØ+ب یہ جو Ù…Ø+بت ہوتی ہے ناں ،اس Ú©Û’ اندر خودر بین سے بھی زیادہ طاقت ہوتی ہے۔ ہمیں جس بندے سے Ù…Ø+بت ہو،اُس Ú©Û’ اندر جھانکنے Ú©Û’ لیے کسی ایکسرے مشین یا خوردبیں کا سہارا لینے Ú©ÛŒ بھی ضرورت نہیں۔ایک نظر ہی آپ Ú©Ùˆ وہ سب Ú©Ú†Ú¾ بتا دیتی ہے جو دنیا Ú©ÛŒ کوئی جدید مشین نہیں بتا سکتی۔‘‘ سکینہ Ù†Û’ اشفاق اØ+مد کا ’’منچلے کا سودا‘‘بند کرتے ہوئے ڈاکٹر خاور Ú©Ùˆ Ø+یران کیا۔
’’سکینہ ،فرض کرو،آپ Ú©Ùˆ کسی سے Ù…Ø+بت ہو اور اُسے آپ سے نہ ہو ØªÙˆÛ”Û”Û”Û”ØŸØŸØŸâ€˜â€˜ÚˆØ §Ú©Ù¹Ø± خاور Ú©Û’ سوال پر ایک بڑا گہرا تاریک سایہ سکینہ Ú©Û’ چہرے پر پھیلا۔
’’مØ+بت کوئی لین دین یا تجارت کا معاہدہ تو نہیں۔جو Ú©Ú†Ú¾ لو اور Ú©Ú†Ú¾ دو Ú©ÛŒ بنیاد پر کیا جائے۔یہ تو ایسا سودا ہے،جو نفع اور نقصان سے بے نیاز ہو کر کیا جاتا ہے۔۔۔‘‘ سکینہ تھوڑا سا افسردہ ہوئی
’’ہوں ،اور اگر دونوں طرف آگ برابر لگی ہوتو۔۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور نے بال پوائنٹ اپنے دانتوں تلے دباتے ہوئے ایک اور سوال کیا۔
’’اگر ایسا ہوتو اس سے بڑھ کر انسان کی کیا خوش قسمتی ہو سکتی ہے۔۔۔‘‘سکینہ زبردستی مسکرائی۔

(صائمہ اکرم چوہدری Ú©Û’ ناول ’’دیمک زدہ Ù…Ø+بت‘‘ سے اقتباس)