حضرت آسیہ کا ایمان
===========
حضرت آسیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے اپنا ایمان اپنے شوہر فرعون سے چھپایا تھا، جب فرعون کو اس کا پتہ چلا تو اس نے حکم دیا کہ اسے گوناگوں عذاب دئیے جائیں تاکہ حضرت آسیہ ایمان کو چھوڑ دیں لیکن آسیہ ثابت قدم رہیں۔ تب فرعون نے میخیں منگوائیں اور ان کے جسم پر میخیں گڑوا دیں اور فرعون کہنے لگا اب بھی وقت ہے ایمان کو چھوڑ دو مگر حضرت آسیہ نے جواب دیا، تو میرے وجود پر قادر ہے لیکن میرا دل میرے رب کی پناہ میں ہے، اگر تو میرا ہر عضو کاٹ دے تب بھی میرا عشق بیٹھتا جائے گا۔
موسٰی علیہ السلام کا وہاں سے گزر ہوا، آسیہ نے موسٰی علیہ السلام سے پوچھا میرا رب مجھ سے راضی ہے یا نہیں ؟ حضرت موسٰی علیہ السلام نے فرمایا، اے آسیہ! آسمان کے فرشتے تیرے انتظار میں ہیں اور اللہ تعالٰی تیرے کارناموں پر فخر فرماتا ہے، سوال کر تیری ہر حاجت پوری ہوگی۔ آسیہ نے دعاء مانگی اے میرے رب میرے لئے اپنے جوارِ رحمت میں جنت میں مکان بنادے، مجھے فرعون اس کے مظالم اور ان ظالم لوگوں سے نجات عطا فرمایا۔
حضرت سلمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں، آسیہ کو دھوپ میں عذاب دیا جاتا تھا، جب لوگ لوٹ جاتے تو فرشتے اپنے پروں سے آپ پر سایہ کیا کرتے تھے اور وہ اپنے جنت والے گھر دیکھتی رہتی تھیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ جب فرعون نے حضرت آسیہ کو دھوپ میں لٹاکر چار میخیں ان کے جسم میں گڑوا دیں اور ان کے سینے پر چکی کے پاٹ رکھ دئیے گئے تو جناب آسیہ نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر عرض کی،
رب ابن لی عندک بیتا فی الجنۃ
اے میرے رب میرے لئے اپنے جوارِ رحمت میں جنت میں مکان بنا۔ (آخر تک)
جناب حسن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کہتے ہیں اللہ تعالٰی نے اس دعاء کے طفیل آسیہ کو فرعون سے باعزت رہائی عطا فرمائی اور ان کو جنت میں بلا لیا جہاں وہ ذی حیات کی طرح کھاتی پیتی ہیں۔
اس حکایت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مصائب اور تکالیف میں اللہ کی پناہ مانگنا، اس سے التجا کرنا اور رہائی کا سوال کرنا مومنین اور صالحین کا طریقہ ہے۔