ترکِ تعلق کھیل نہیں ہے پہلے پہل گھبرائے بہت
اپنی انا کے پاگل پن پر اکثر ہم پچھتائے بہت

اُس کو بھی معلوم نہیں تھا ہم بھی کچھ ناواقف تھے
عشق سے مشکل کھیل میں پڑنا دونوں کو تڑپائے بہت

فرطِ Ø+یا سے سرخ ہوا تھا میرے عرضِ Ø+ال پہ جو
اتنا اُس کو بھولنا چاہوں وہ چہرہ یاد آئے بہت

کیسا زعم کہاں کے تیور کس کی خودی اور کیسی انا
یارو سچّی بات تو یہ ہے کھو کے اُسے پچھتائے بہت

اُس کی آنکھیں بھی بوجھل تھیں شائد وہ بھی رویا تھا
وہ بھی ہم کو بھول نہ پایا یاد اُسے ہم آئے بہت

نرگس بیلا جوہی چمپا سب اُس کی تصویریں ہیں
رات کی رانی کا ہر جھونکا اُس کی یاد دلائے بہت

امبوا پر کوئل کی کوک سے دل میں ہوک سی اُٹھتی ہے
اُس پر بھیگا سا یہ موسم دل کی آگ بڑھائے بہت

صبر و ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے ہیں آج خلیل
اُس کی یاد کا چھبتا کانٹا اشکِ خون رلائے بہت۔