پھول ہوتا نہ گھاس ہوتا میں
بس ہوا کا لباس ہوتا میں
یا پہاڑوں کی چوٹیوں پہ کہیں
یا سمندر کے پاس ہوتا میں
شب کے بنجر سیاہ کھیتوں میں
چاندنی کی کپاس ہوتا میں
قرب اغیار سے تو بہتر تھا
اپنے لوگوں کے پاس ہوتا میں
وقت کو جیب ہی میں بھر لیتا
کچھ تو لمحہ شناس ہوتا میں
شب کو جلتا کھلے دریچوں میں
راہ گیروں کی آس ہوتا میں
دن چڑھے اوڑھ لیتا جسم اپنا
رات کو بےلباس ہوتا میں
شاعری کے بغیر دنیا میں
جانے کتنا اداس ہوتا میں
(نصیر احمد ناصر)