حضرت امیر معاویہ کی مختصر سوانح (مکمل)

آپ کا نام و نسب

آپ کا نام معاویہ بن صخر ابی سفیان بن حرب بن امیہ بن عبدالشمس بن عبدالمناف ہے آپ چار پشتوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شجرہ سے جا ملتے ہیں آپ کا خاندان بنی امیہ خاندان رسول بنی ہاشم کا قریبی تھا ان کے ایک دادا تھے عبدالمناف ۔ آپ کو ابوعبدالرحمن اور خال المومنین بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ آپ کی بھن سیدہ ام حبیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں شامل تھیں

آپ کا حلیہ

آپ دراز قد ، رنگ کے گورے تھے اور آپ کی داڑہی گھنی تھی آپ بلکل سادگی پسند تھے علی بن ابی جبلہ نے باپ سے روایت کی ہے میں نے حضرت معاویہ کو دمشق کی منبر پر خطبہ پڑہتے ہوئے دیکہا آپ نے پیوند لگے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔

آپ کی ولادت۔

آپ بعثت سے پانچ سال قبل پیدا ہوئے تھے اور ہجرت کے وقت آپ کی عمر اٹھارہ سال تھی ۔

آپ کی اولاد

آپ نے متعدد شادیان کیں لیکن دو بیویوں سے آپکو اولاد ہوئی ۔ ایک سے یزید اور ایک بیٹی اور دوسری سے عبداللہ اور عبدالرحمن تھے ۔

آپ کے حالات قبل اسلام

آپ کے قبل اسلام حالات قطعی طور پر کہیں نہیں ملتے بس کسی کسی روایت میں آپ کے بارے میں پتا چلتا ہے جیسے آپ کو دیکہ کر کسی آپ کی والدہ سے کہا یہ لڑکا مکہ کا سردار بنے گا تو آپ کی والدہ نے کہا کہ نہیں یہ عرب کا سردار بنے گا ۔ باقی تفصیل سے آپ کا زکر نہیں ملتا ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ آپ اس وقت چھوٹی عمر کے تھے ۔

آپ کا اسلام

آپ کے قبول اسلام کے بارے میں اختلاف ہے کچھ علماء کا کہنا ہے کہ آپ والدین کے ساتھ فتح مکہ میں مسلمان ہوئے ہیں اور کچھ علماء کا کہنا ہے کہ آپ کے نے 7 ہجری میں عمرہ قضاء کے موقع پر اسلام لائے تھے ۔ آپ کے والد ابی سفیان اسلام کے خلاف تحریک کے سرگرم رکن تھے لیکن ان میں حضرت معاویہ کا نام کہیں نہیں ملتا جنگ بدر ، احد ، خندق وغیرہ میں آپ شریک نہیں ہوئے ۔ جس سے پتا چلتا ہے اسلام آپ کے اندر پہلے سے ہی گھر کرچکا تھا لیکن والدین کی ڈر کی وجہ سے آپ ظاہر نہیں کرتے تھے خود امیر معاویہ سے ایسی روایات موجود ہیں(طبقات ابن سعد)۔ بھر حال آپ نے اپنا اسلام مکہ کی فتح کے بعد ظاہر کیا ۔

آپ کی ہجرت

آپ نے فتح مکہ کے فورن بعد ہجرت کی اور مدینہ آگئے یہاں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب تھے اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وحی اور دوسری خطابت کرتے تھے ۔ اس لئے آپ کو کاتب وحی بھی کہا جاتا ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ جنگ حنین ، طائف اور تبوک میں شریک رہے ۔

خلافت صدیق اکبر

حضرت معاویہ اور آپ کے خاندان نے خلافت صدیق میں بہت قربانیاں دیں اور جہاد میں بھرپور حصہ لیا ۔ ارتداد کی جنگوں اور جنگ یمامہ میں دوسرے صحابہ کے ساتھ آپ شرک رہے حضرت صدیق نے آپ کے بھائی یزید بن ابی سفیان کو امیر بنا کر شام بھیجا تھا جہاں ان کا انتقال ہوگیا تو حضرت صدیق حضرت معاویہ کو ان کی جگہ امیر بنایا ۔ اس موقع پر آپ کے والد نے آپ سے فرمایا کہ ہم اسلام لانے میں ان سے بہت پیچے رہ گئے ہیں اور یہ ہم سے بہت آگے ہیں امیر المومنین نے تم پر اعتماد کیا ہے اس کو بخوبی نبھانا۔

خلافت فاروق اعظم

حضرت فاروق اعظم کی خلافت میں سیدنا معاویہ نے شام و حمص کو فتح کرلیا اور فاروق اعظم نے وہاں کا گورنر انہیں ہی بنا دیا ۔ آپ حضرت فاروق اعظم کے واحد گورنر ہیں جن کی کوئی خاص شکایت کبھی بھی نہیں آئی ۔ آپ رعیت کا بہت خیال رکہنے والے تھے ۔ آپ نے چاہا کہ بحری فوج بھی تیار کرلی جائے لیکن حضرت فاروق اعظم نے آپ کو اس کی اجازت نہیں دی۔

خلافت عثمان غنی

حضرت عثمان غنی کے دور میں آپ پورے شام و اردن کے گورنر تھے آپ کا علائقہ وہ واحد علائقہ تھا جہاں حضرت عثمان کے خلاف کوئی شورش نہیں ہوئی۔ آپ نے حضرت عثمان کے حکم سے پہلی اسلامی بحری فوج بنائی اور قبرص کو فتح کیا یہ مسلمانوں کی پہلی بحری جنگ تھی جس کے سالار معاویہ رضہ تھے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی کی تھی اور اس جنگ کے شرکاء کو جنت کی بشارت دی تھی۔

حضرت عثمان نے جب شورش کے دوران سبھی گورنروں کو مدینہ میں بلایا تو حضرت معاویہ بھی مدینہ آئے اور حضرت عثمان کو بہت اصرار کیا کہ وہ ان کے ساتھ شام چلین لیکن حضرت عثمان نے مدینہ چھورنے سے انکار کردیا۔ تب حضرت معاویہ شام واپس چلے گئے اور تا شھادت عثمان وہیں کے گورنر رہے۔

خلافت علی المرتضی

حضرت عثمان کی مطلومانہ شہادت کے بعد حضرت علی کی بیعت کی گئی اور حضرت علی کے ساتھ جو حضرت عثمان کے باغی لیڈر تھے انہوں نے حضرت علی پر زور دیا کہ وہ جب تک معاویہ کو نہیں ہٹائیں گے ان کی حکومت مستحکم نہیں ہوگی۔ ان لوگوں نے بنی امیہ کے گھر بھی لوٹے اس صورتحال میں بنو امیہ اور حضرت عثمان کے صاحبزادے شام معاویہ رضہ کے پاس چلے گئے اور شام میں پھر لوگون نے امیر المومنین عثمان کے خون کا مطالبہ کیا۔ حضرت معاویہ نے حضرت علی کو قصاص کے بارے میں لکہا لیکن حضرت علی نے اس معاملے کو پیچھے ڈال دیا اور اپنی حکومت مستحکم کرنے میں لگ گئے لیکن اس کی وجہ سے مسلمانون میں دو بڑی جنگین ہوئیں جمل و صفین ۔پھر بالاخر صلح ہوئی ۔ حضرت معاویہ شام کے حکمران قرار پائے اور حضرت علی خلیفہ اور باقی دنیا کے حکمران قرار پائے۔

خلافت معاویہ و عام الجماعۃ

حضرت علی کی شہادت کے بعد حضرت حسن کی بیعت کی گئی لیکن سیدنا حسن مسلمانوں کی خونریزی نہیں چاہتے تھے اس لئے وہ حضرت معاویہ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوگئے اور اس کے بعد سب لوگ 41 ہجری میں حضرت معاویہ کی خلافت پر متفق ہوئے اس لئے اس سال کو عام الجماعۃ کہا جتا ہے

حضرت معاویہ کی خلافت کے اہم واقعات

وسظی ایشیا کی فتوحات ، شمالی افریقا کی فتوحات ، رومیوں سے معرکے ، قسطنطنیہ پر حملہ جس کی پیش گوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی ،ڈاک کا نظام وغیرہ

عراق کے باغیوں کا قتل

حضرت معاویہ کے دور میں حجر بن عدی نے عراق میں بغاوت کرنی کی کوشش کی تھی جس کا زکر تاریخ کے ہر کتاب مین ملتا ہے اور شیعہ کذاب ابی مخنف اس کا حامی ہونے کے باوجود اس کی بغاوت کو نہیں چھپا سکا۔ حجر بن عدی نے سیدنا حسن سے احتجاج کیا اور آپ کو مسلمانوں کو خوا ر کرنے والا کہا ۔ سیدنا حسین کو بھڑکا نے کی کوشش کی لیکن ان کے جواب سے موصوف کے کان ٹھنڈے پڑ گئے ۔ حضرت حسین نے اسے کہا کہ ہم بیعت کر چکے ہیں اب توڑنے کی کوئی سبیل نہیں خدا نہ کرے معاویہ پر دکہے دن آئیں۔ یہ سن کر حجر بن عدی کوفہ میں پہلے حضرت مغیرہ بن شیبہ کو تنگ کرتا رہا وہ عثمان رضہ اور معاویہ رضہ کو گالیاں دیتا اور کہتا کہ یہ مجرم ہیں خلافت آل ابی طالب کو حق ہے ۔ حضرت ٘مغیرہ بن شعبہ کی وفات کے بعد جب زیاد کو حضرت معایہ نے کوفہ کا گورنر بنایا تو یہ ان سے بھی یہی معاملہ کرتا ابتدا میں زیاد نے اسے سمجھانے کی کوشش کی پھر اس کے پاس صحابہ کو بھیجا جن میں عدی بن حاتم رضہ(علی رضہ بڑی حامی تھے) بھی تھے تو اس نے ان کی بیعزتی کی تب حضرت عدی بن حاتم رضہ نے کہا میں نہیں جانتا تھا کہ یہ بیچارہ ضعف کے اس حد تک آپھونچا ہے انہوں زیاد کو اس سے آگاہ کیا اور پھر حجر بن عدی اور اس کے ساتھیوں نے محلہ کندہ میں پولیس کے ساتھ جنگ کی بلآخر پکڑے گئے ان کے خلاف 70 لوگوں نے شاہدی دی جس میں 10 صحابہ تھے اس لئے حضرت معاویہ کے حکم سے انہیں قتل کردیا گیا ۔ اور یہ قتل حدود شریعت میں رہتے ہوئے تھا معنی کہ اس سے شریعت کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔

زیاد کو اپنا بھائی بنانا ۔

حضرت معاویہ کو بہت لوگون نے شاہدی دی کہ زیاد ابی سفیان کا بیٹا ہے تو آپ اسے خاندان ابی سفیان میں شامل کردیا اور فرمایا کہ میں نے صرف حقدار کو حق ہی دیا ہے۔لیکن بہت سے علماء نے اسے منطور نہیں کیا۔ اس کا زکر دفاع معاویہ میں آئے گا انشاء اللہ

یزید کی ولی عہدی

حضرت معاویہ مسلمانون کی آپس میں نبرد آزمائی دیکہ چکے تھے اور ان کے دور حکومت میں جاکہ کچھ اتحاد ہوا تھا اور پھر بنی امیہ والے بھی تھے جن کے سواء عرب کسی اور کی ماننے کو تیار نہیں تھے وہ بھی آپ کے بعد خلافت پر مسئلہ کر سکتے تھے اس لئے آپ نے اپنے بیٹے یزید کو خلیفہ نامزد کیا لیکن بہت سے لوگوں اسے نامنظور کیا اور مدینہ مین بھی حسین رضہ، اور عبداللہ بن زبیر ، نے اسے منظور نہیں کیا ۔

حضرت معاویہ کی علالت اور آپ کی وفات

60 ہجری میں آپ بیمار پڑگئے اس وقت آپ کی عمر قریب ستر برس تھی اور یزید اس وقت جنگ پر تھا اس لئے آپ نے اس کے لئے ایک وصیت نامہ لکھوادیا جس ضروری حصہ ہم یہاں نقل کرتے ہیں

جان پدر میں تم اہل حجاز کے حقوق کے بارے میں تاکید کرتا ہوں کیوں کہ وہ تمہارہ بنیاد ہیں ۔ ان کی ہر ممکن مدد کرنا جو ان میں آئے اس کی داد رسی کرنا جو نہ آئے اس کی خبر گیری رکہنا ۔ اہل عراق کے مطالبات مانتے رہنا وہ اگر روز گورنر بدلنے کو کہیں تو بدلنا یہ اس سے اچھا ہے کہ تلوارین میانوں سے نکلیں۔اہل شام سے مدد لینا وہ ان کو مشیر بنانا ۔ سب اہم معاملہ خلافت کا ہے اس میں حسین رضہ ، ابن عمر رضہ اور عبداللہ بن زبیر رضہ کے علاوہ کوئی تھمارہ مقابل نہیں ابن عمر سے تمہیں کوئی مسئلہ نہیں وہ زہد و عبادت کے علاوہ کسی چیز کا ان سے واسطہ نہیں ۔ حسین رضہ کو اہل عراق تمہارے سامنے کہڑا کردیں گے جب ان پر قابو پالو تو ان سے درگزر کرنا وہ قرابت دار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند ہیں ۔البتہ عبداللہ بن زبیر سے ہوشیار رہنا وہ تمھارے مقابلہ میں آئے گا وہ صلح کرلے تو ٹھیک ورنہ ہر گز نہیں چھوڑنا۔

اس کے بعد آپ نے وصیت کی کہ میرہ ذاتی مال کا آدہا بیت المال میں شامل کردینا اور میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناخن ، ایک قمیص اور کچھ بال ہیں انکو میرے منھن کے اندر رکہ دینا اور پھر مجھے اللہ کے حوالے کردینا۔ آپ کی جنازہ نماز ضحاک بن قیس نے پڑہائی اور دمشق میں ہی آپ کو دفن کردیا گیا۔ رضی اللہ عنہ

امیر معاویہ رضہ کے فضائل

حضرت معاویہ کے فضائل میں یہ ہی کافی ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی تھ ےاس کے علاوہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکہا تھا کہ میرے امت کے لوگ پہلی دفعہ سمندر میں جہاد کر رہے ہیں تو آپ بہت خوش ہوئے تھے اور ان کو جنت کی بشارت دی تھی یہ پہلا خوش نصیب لشکر جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کو حقیقت میں بدل دیا امیر المومنین عثمان رضہ کے دور میں قبرص کے جہاد پر گیا تھا اور اس کے امیر ، امیر معاویہ رضہ تھے

آپ بہت ہی حلیم طبیعت کے مالک تھے دانا تھے حکومتی امور کو بہت ہی اچھی طرح جانتے تھے حالات کا اندازہ ٹھیک لگا لیتے تھے ۔بہت درگزر کرنے والے تھے اور کاتب وحی تھے اہل فتاوی صحابہ میں ان کا شمار ہوتا ہے ان سے روایت کرنے والوں میں ابن زبیر و ابن عباس جیسے لوگ بھی ہیں ۔ آپ بڑے فیاض تھے لوگوں کو بھت تحائف سے نوازتے تھے ۔

حضرت معاویہ کے حق میں احادیث

امام احمد اپنی مسند میں امام بخاری تاریخ بخاری میں اور امام ترمذی اپنی سنن میں یہ حدیث نقل کرتے ہیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے حق میں دعا کی کہ اے اللہ اس کو ہدایت یافتہ اور اس کے ذریعہ سے ہدایت دے

امام نسائی نے اپنی سنن ، ابن خزیمہ نے اپنی صحیح اور امام احمد نے اپنی مسند میں یہ حدیث نقل کی ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ا ے اللہ معاویہ حساب و کتاب کا علم دے اور اسے عذاب سے بچالے۔

ابن کثیر نے حضرت عائشہ کی سند سے نقل کیا ہے کہ حضور علیہ السلام حضرت ام المومنین ام حبیبہ (حضرت معاویہ کی بہن) کے پاس بیٹھے تھے کہ کسی نے دروازی کہٹکہٹایا آپ علیہ السلام نے کہا کون ہے تو جواب ملا کہ معاویہ ہیں آپ نے کہا اندر آنے دو ،حضرت معاویہ اندر آئے اور ان کے کان میں قلم پڑا تھا آپ علیہ اسلام نے ان سے پوچھا یہ کیا ہے حضرت معاویہ نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے یہ قلم اللہ اور اس کے رسول اللہ کے لئے تیار کیا ہے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تمہیں جزاء خیر دے میں وحی الاہی سے تمہیں کاتب مقرر کرتا ہوں اور میں ہر چھوٹا بڑا کام وحی الاہی سے کرتا ہوں بس جب اللہ تجھے جب قمیص(خلافت) پہنائے گا تو تیرا یا حال ہوگا ام المومنین ام حبیبہ یہ سن کر بیٹھ گئیؓں اور کہا یا رسول اللہ کیا واقعی اللہ اسے قمیص پہنائے گا آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں پر اس میں مصیبت ہپا۴ی جاتی ہے ام المومنین ام حبیبہ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے دعا کیجئے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا اے اللہ ہدایت سے اس کی رہنمائی فرما اور اسے ہلاکت سے بچا اور انہیں دنیا اور آخرت میں بخش دے۔

ابن کثیر نے بیہقی وغیرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ کو کہا کہ عنقریب اللہ تمہیں میرے امت پر حاکم بنائے گا ان کی اچھی بات قبول کرنا اور بری بات سے درگزر کرنا۔

ایک بار ام المومنین ام حبیبہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم معاویہ سے محبت رکہتی ہو انہوں نے کہا یا رسول اللہ کون سی بھن اپنی بھائی سے محبت نہیں رکھتی آپ نے فرمایا کہ اللہ اور اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی معاویہ سے محبت رکہتے ہیں۔

حضرت علی کے تاثرات

ابن کثیر وغیرہ نے حضرت علی سے نقل کیا ہے

حضرت علی رضہ نے فرمایا کہ معاویہ رضہ کی عمارت کو برا مت سمجہو کیونکہ میرے بعد اگر یہ بھی اٹھ (یعنی فوت ہوگئے) تو تمہارے سر جسم سے حنظل کی طرح اڑیں گے۔ ایک اور جگہ پر آپ نے فرمایا کہ معاویہ ہمارہ بھائی ہے ہم اس کی برائی پسند نہیں کرتے۔

حضرت حسن کے تاثرات

جب حضرت حسن او ر معاویہ رضہ کے درمیان صلح ہوئی تو کوفہ کے کچھ شریروں نے آپ کو کہا اے مسلمانوں کو زلیل کرنے والے تو حسن رضہ نے فرمایا کہ میں کیا کرتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ دن رات نہیں گزرے گیں یہاں تک کہ معاویہ حکمران ہونگے۔

یعنی حسن رضہ معاویہ رضہ کی حکمرانی کو حکم رسول اللہ سمجھتے تھے

حضرت ابن عباس کے تاثرات

ابن عباس سے لوگوں نے حضرت معاویہ کے وتر ادا کرنے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کہا کہ وہ فقیہ ہیں

ابن عباس فرماتے ہیں کہ ملکی نظام و امور بہتر انداز میں چلانے والا میں معاویہ سے بڑہ کر نہیں دیکہا۔

ابن عباس کو جب حضرت معاویہ کے وفات کی خبر ملی تو آپ نے فرمایا خدا کی قسم وہ اپنے پیشرو خلفاء جیسے تو نہیں تھے پر واللہ ان کے بعد ان جیسا کوئی نہیں آئے گا

عبداللہ بن عمر رضہ کے تاثرات

حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد میں معاویہ رضہ کے علاوہ کوئی بہتر حکمران نہیں دیکہا جب آپ سے پوچھا گیا کہ ابی بکر ،عمر ، عثمان ، علی رضی اللہ عنہما بھی تو آپ نے کہا وہ سب خیر اور معاویہ سے بہتر تھے لیکن حکمرانی کرنے میں میں معاویہ بہتر ہیں۔

حضرت سعد بن ابی وقاص کے تاثرات

حضرت سعد رضہ فرماتے ہیں کہ میں عثمان رضہ کے بعد معاویہ رضہ سے بہتر حق پورا کرنے ولا اور حق کے ساتھ فیصلہ کرنے ولا نہیں دیکہا

(حضرت علی بحرحال معایہ رضہ سے اس معالمے میں بہتر تھے بلکہ حضرت علی اس میں حضرت عمر اور ابی بکر کے ہمعصر تھے ۔ حضرت سعد کا یہ کہنا ان کی اپنی راء ہے)

حضرت ابی درداء

حضرت ابی درداء فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے زیادہ مشابھ اس دور میں معاویہ سے بہتر کوئی نہیں ۔

حوالہ جات أ البدایہ والنہایہ ، صحیح بخاری ، سنن ترمزی ، سیرت امیر معاویہ

٭٭مسلمہ٭٭