پھر اُسی معبد کی ویراں سیڑھیوں پر
زندگی
بازو بریدہ، سر برہنہ، آبلہ پا، آ گئی ہے
جس جگہ سے آرزو کے سبزہ زاروں کی طرف
رختِ سفر باندھا
لہو کی تال پر نغمہ سرائی کی
محبت کیا ہے
جس کی آرزو میں لوگ مر جاتے ہیں
شاید ایک رستہ ہے
کہ جس پر چلتے جانا، چلتے جانا ہے ضروری
سوچنا منزل کے بارے میں عبث ہے
ایک باغیچہ ہے
جس کے پھول کانٹوں سے بھرے ہیں
اور کسی نے آج تک چکھے نہیں اس کے ثمر
یا ایک بازیچہ ہے
اور بازیچۂ طفلاں نہیں ہے
لوگ مر جاتے ہیں
یہ معلوم ہے ۔۔۔ پھر بھی
اُسی معبد کی ویراں سیڑھیوں پر
دل شکستہ زندگی ہے
اور دل میں آرزو ہے پھر محبت کی