حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا۔
"میرے حجرہ اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کی کیاریوں میں کی ایک کیاری ہے اور میرا منبر میرے حوض(حوض کوثر) کے اوپر ہے۔"
(بخاری و مسلم شریف)
"روضتہ" کے معنی ہیں باغ باغیچہ ہرا بھرا چمن، سبزہ زار ارشاد نبوی صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّم کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص میری مسجد (مسجد نبوی) میں اس جگہ پر اللہ کی عبادت کریگا۔ جو میرے حجرہ (قبر شریف) اور منبر کے درمیان ہے ۔ تو اس کو بہشت کے باغ میں، جنت کے باغ میں پہنچایا جائے گا۔ یعنی اس کو جنت ملے گی اور جو شخص میرے منبر کے قریب عبادت الٰہی کو لازم کریگا۔ وہ قیامت کے دن میرے حوض کوثرسے سیراب ہوگا۔
حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث اپنے ظاہری معنی پر باقی ہے اور چونکہ یہاں "روضہ" کا استعمال ٹکٹرے اور قطعہ کے معنی میں ہوا ہے اس لیے بلاشک و شبہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مبارک جگہ دراصل اس روئے زمین کا حصہ نہیں ہے۔ بلکہ جنت کا ایک ٹکٹرا ہے جو جنت سے مسجد نبوی (صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّم) میں منتقل کیا گیا ہے۔ اور پھر قیامت قائم ہونے پر اپنے اصل مقام جنت کو لوٹا دیا جاے گا۔ لٰہذا قیامت کا صور پھونکے جانے پر ساری زمین فنا ہو جائے گی۔ مگر یہ خاص ٹکڑا(روضہ جنت) فنا نہیں ہوگا۔ اس ریاض الجنتہ میں حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّم کا حجرہ مبارک (قبر شریف) کی زیارت کرنے والوں فرشتوں، جنات اورانسانوں میں سے وہاں رہنے والوں کا ہجوم ہر وقت اس جگہ عبادت الٰہی اور ذکر الٰہی میں مشغول رہتا ہے۔ ایک جماعت آتی ہے تو دوسری جماعت جاتی ہے اس طرح وہ مخصوص جگہ کسی بھی وقت حاضرین سے خالی نہیں رہتی۔
پس اسی اعتبار سے اس جگہ کو " روضہ" فرما یا گیا ہے۔
جیسا کہ ذکر اللہ کی مجلسوں کو " ریاض الجنتہ" (بہشت کے باغات) سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔
اللہ اور اللہ کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّم ہی بہتر جانتے ہیں کہ ریاض الجنتہ کی کتنی فضیلتیں ہیں اور وہاں کی عبادتوں کا کیا مقام ہے۔