وہ جو دعوے دار ہے شہر میں کہ میں سب کا نبض شناس ہوں
کبھی مجھ سے آ کے بھی پوچھتا کہ میں کس کے غم میں اداس ہوں
یہ میری کتاب حیات ہے اسے دل کی آنکھ سے پڑھ ذرا
میں ورق ورق تیرے سامنے تیرے روبرو تیرے پاس ہوں
یہ تیری امید کو کیا ہوا کبھی تو نے غور نہیں کیا؟
کسی شام تو نے کہا تو تھا تیری سانس ہوں تیری آس ہوں
یہ تیری جدائی کا غم نہیں یہ سلسلے تو ہیں روز کے
تیری ذات اس کا سبب نہیں میں بہت دنوں سے اداس ہوں
کہاں اتنی سزائیں تھیں بھلا اس زندگانی میں
ہزاروں گھر ہوئے روشن جو میرا دل جلا محسنؔ