Koi tooti phooti tehreer nai balkeh rongte kharre ho ge hen..:zabardast.اردر شاعری و ادب میں دسمبر کا اپنا مقام ہے،ہجر کی باتیں،جدائی کے زخم ،لوٹ آنے کی امیدیں کیا کیا کچھ نہیں جو اس مہینہ سے وابستہ کر لیا جاتا ہے۔مگر دسمبر آتے ہی مجھ پر ایک عجیب سی اداسی چھا جاتی،ایک ایسی انتر ہوت اداسی جیسے لفظوں میں بیان کرنا شاید میرے لیے ممکن نہیں۔۔سقوط ڈھاکہ کا غم مجھے جکڑ سا لیتا ہے اور اس غم کے آگے دنیا کے باقی سارے غم ہیچ سے لگنے لگتے ہیں۔اسلام کے نام پر بننے والا دنیا کا سب ساے بڑا اسلامی ملک،اپنوں کی نادانیوں اور غیروں کی سازشوں کا کیونکر شکار بنا۔اس سانحہ پر اس وقت کے دانشوروں،صحافیوں،،سیاستدانں،جر نیلوں وغیرہ نے بہت کچھ لکھا۔اپنی شروعاتی کالج لائف میں ،میں نے بھی ان میں بہت ساروں کو پڑہا،اور سمجھنے کی کوشش بھی کی ،اور اسی دوراں پہلی مرتبہ کچھ لکھا اور اسے لکھ کر اپنی ڈائری میں محفوظ بھی کیا،یہ میرے اس دور کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ ہیں، جب میں اس سانحہ پر بہت الجھا ہوا تھا،اور آج بھی اتنا کچھ پڑھ اور سمجھ لینے کے بعد پر خود کو الجھا ہوا اور اسی کشمکش میں گھرا پاتا ہوں کہ آخر یہ کیونکر ہوا ،کیوں خون کی ندیاں بہائی گئیں،کیوں اپنوں کے گلے کاٹے گئے،عصمت دریاں کی گئیں اور ایسا رقص ابلیس کہ الامان الحفیظ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔
یہ ٹوتۓ پھوٹے الفاظ شاید پہلے بھی یہاں ایس ڈی پر میں نے شئیر کیے تھے اور آج پھر دوبارا شئیر کرنا چاہوں گا،،کہ ایک مرتبہ پھر وہی 16 دسمبر کی منحوس رات ہے اور ایک ٹیس ہے ،خلش ہے یا درد ہے جو مجھے بے چین کیے ہوئے ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
درد وہ آگ کہ بجھتی نہیں جلتی بھی نہیں
یاد وہ زخم کہ بھرتا نہیں ، رستا بھی نہیں