بچھڑ جائیں گے ہم لیکن ،
ہماری یاد کے جگنو تمہاری شب کے دامن میں ستارہ بن کے چمکیں گے
تمہیں بے چین رکھیں گے
بہت مصروف رہنے کے بہانے تم بناؤ گے
بہت کوشش کرو گے تم ،
کہ اب موسم جو بدلیں تو ہماری یاد نہ آۓ
مگر
ایسا نہیں ہوگا
کہیں جو سرد موسم میں
دسمبر کی ہواؤں میں
تمھارے دل کےگوشوں میں
جمی ہیں برف کی طرح
وہ یادیں کیسے پگھلیں گی
کبھی گرمی کی تپتی سرخ گھڑیوں میں
میرے ماضی کو سوچو گے
تو آنکھیں بھیگ جائیں گی
گھڑی پیچھے کو دوڑے گی
کئی سالوں کی گم گشتہ ہماری یاد آۓ گی
بچھڑ جاؤ مگر سن لو
ہمارے درمیان ایسی کوئی تو بات بھی ہوگی
جسے تم یاد رکھو گے
مجھے تم یاد رکھو گے