چلی ہے شہر میں اب کے ہوا ترکِ تعلق کی
کہیں ہم سے نہ ہو جائے خطا ترکِ تعلق کی
بناوٹ گفتگو میں ، گفتگو بھی اکھڑی اکھڑی سی
تعلق رسمی رسمی سا ، ادا ترکِ تعلق کی
ہمیں وہ صبر کے اس موڑ تک لانے کا خواہاں ہے
کہ تنگ آجائیں ہم ، مانگیں دعا ترکِ تعلق کی
بہانے ڈھونڈتا رہتا ہے وہ ترک مراسم کے
اسے ویسے بھی عادت ہے ذرا ترکِ تعلق کی
یہ بندھن ہم نے باندھا تھا سلامت ہم کو رکھنا تھا
بہت کوشش تو اس نے کی سدا ترکِ تعلق کی
وہ ملتا بھی محبت سے ہے لیکن عادتاً ساجد
کئے جاتا ہے باتیں جا بجا ترکِ تعلق کی