buhat khub
چلی ہے شہر میں اب کے ہوا ترکِ تعلق کی
کہیں ہم سے نہ ہو جائے خطا ترکِ تعلق کی
بناوٹ گفتگو میں ، گفتگو بھی اکھڑی اکھڑی سی
تعلق رسمی رسمی سا ، ادا ترکِ تعلق کی
ہمیں وہ صبر کے اس موڑ تک لانے کا خواہاں ہے
کہ تنگ آجائیں ہم ، مانگیں دعا ترکِ تعلق کی
بہانے ڈھونڈتا رہتا ہے وہ ترک مراسم کے
اسے ویسے بھی عادت ہے ذرا ترکِ تعلق کی
یہ بندھن ہم نے باندھا تھا سلامت ہم کو رکھنا تھا
بہت کوشش تو اس نے کی سدا ترکِ تعلق کی
وہ ملتا بھی محبت سے ہے لیکن عادتاً ساجد
کئے جاتا ہے باتیں جا بجا ترکِ تعلق کی
Merey jaisi aankhon walay jab Sahil per aatay hain
lehrain shor machati hain, lo aaj samandar doob gaya
بہانے ڈھونڈتا رہتا ہے وہ ترک مراسم کے
اسے ویسے بھی عادت ہے ذرا ترکِ تعلق کی
Khoob .,..
دل اگر بے نقاب ھوتے
تو سوچو..! کتنے فساد ھوتے
/up/up