گئے دنوں کا سراغ لیکر کہاں سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ
خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم، نظر اسے ڈھونڈتی ہے ہر دم
وہ بوئے گل تھا کہ نغمہ جان، میرے تو دل میں اتر گیا وہ
وہ میکدے کو جگانے والا، وہ رات کی نیند اڑانے والا
نہ جانے کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہیں گھر گیا وہ
کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی، بدل چلا رنگ آسماں بھی
جو رات بھاری تھی ڈھل گئی ہے، جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ
شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں، گئے دنوں کو بلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہمسفر تھا، مثل گرد سفر گیا وہ
بس اک منزل ہے بوالہوس کی، ہزار رستے ہیں اہل دل کے
یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں، گزر کیا میں ٹھہر گیا وہ
وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر سفر کیا تونے منزلوں کا
تیری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائے گزر گیا وہ
وہ ہجر کی رات کا ستارا، وہ ہمنفس ہمسخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام پیارا، سنا ہے کل رات مر گیا وہ
بس ایک موتی سی چھب دیکھا کر، بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر
ستارا شام بن کے آیا، برنگ خواب سحر گیا وہ
نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا، نہ فرصتوں کی اداس برکھا
یونہی ذرا سی کسک ہے دل میں، جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ
وہ رات کا بے نوا مسافر، وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر
تیری گلی تک تو ہم نے دیکھا، پھر نہ جانے کدھر گیا وہ