تاش کے گھر بنائے بیٹھی ہوں
کانچ کے پر لگائے بیٹھی ہوں
رسمِ یاراں کو توڑنا ہوگا
حوصلے یوں بڑھائے بیٹھی ہوں
ہر طرف ڈھل رہے ہیں اندھیارے
دل کا دیپک جلائے بیٹھی ہوں
گھونسلے وہ پرند چھوڑ گئے
آس جن کی لگائے بیٹھی ہوں
یاد زنجیر بن نہ جائے کہیں
پاؤں اپنے اُٹھائے بیٹھی ہوں
میں ستارہ ہوں اس کی قسمت کا
آس اس کی لگائے بیٹھی ہوں
یہ دیا بھی کہیں نہ بجھ جائے
جو ہوا سے چھپائے بیٹھی ہوں